1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کی جیت کے عالمی میڈیا میں چرچے

18 مئی 2014

بھارت میں مودی اور ان کی پارٹی کی جیت نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے، کئی اخبارات نے نتائج کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ کچھ نے ’متنازعہ لیڈر‘ کی حکومت سے وابستہ امیدوں سے خبردار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1C1xl
تصویر: Reuters

بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کو پاکستانی میڈیا میں بھی بڑے پیمانے پر کوریج ملی ہے۔ پاکستان کے تقریباﹰ تمام بڑے اردو اور انگلش اخبارات نے مودی کی جیت کو پہلے صفحے کی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کی اخبار ’دی نیشن‘ کی ہیڈ لائن تھی، ’’بھارت میں مودی کی لہر نے صفایا کر دیا‘‘۔ متوازن نظریات کے حامل مقبول اخبار ڈان نے لکھا، ’’بی جے پی نے کانگریس کو شکست دے دی‘‘۔ اس اخبار نے لکھا ہے کہ اس کے ساتھ ہی بھارت میں دائیں بازو کی سیاست بھی واپس آ گئی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی اقتدار پر غیر معمولی اور غیر متوقع طور پر گرفت مضبوط ہوگی ہے۔

پاکستانی اخبار دی نیوز نے مودی کے اگلے وزیراعظم بننے کو شہ سرخی بنایا۔ اس اخبار نے مودی کی کامیابی کو گزشتہ تیس برسوں میں سب سے فیصلہ کن جیت قرار دیا۔ ایکسپریس ٹریبون نے بھی نریندر مودی کی جیت کو ’حیران کن‘ قرار دیا۔ اسی طرح جنگ، نوائے وقت، ایکسپریس، مشرق، خبریں، دنیا اور جہان پاکستان سمیت کئی دیگر اردو اخبارات نے مودی کی انتخابی فتح کو پہلے صفحے پر جگہ دی۔ ان اخبارات میں مجموعی طور پر مودی کے ’معجزانہ عروج‘ پر ہی توجہ مرکوز کی گئی۔

چین کے سرکاری میڈیا میں بھی مودی کو واضح کوریج ملی۔ زیادہ تر چینی اخبارات میں مودی کی وہ تصویر لگائی گی، جس میں وہ اپنی والدہ سے پیار لے رہے ہیں۔ ہانگ کانگ کی اخبار ’چائنا مارننگ پوسٹ‘ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ چین نئے بھارتی لیڈر کے ساتھ ’ذاتی تعلقات‘ قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس اخبار کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے مودی اور چین نے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

اس اخبار کے مطابق یہی وجہ ہے کہ چین کے سرکاری میڈیا نے مودی کی انتخابی ریلیوں میں دیے گئے ان بیانات کو انتہائی کم اہمیت دی ہے، جس میں انہوں نے چین پر ’توسیع پسندانہ سوچ‘ کا الزام عائد کیا۔ اس اخبار نے ہانگ کانگ میں چائنا یونیورسٹی کے پروفیسر جیک لینچوان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’چین اب بھی مودی اور ان کی جماعت کے ساتھ ڈیل کرنا مشکل سمجھتا ہے۔ چین یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ ابھرتا ہوا ستارہ بھارت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین نے ماضی میں ہی مودی پر سرمایہ کاری شروع کر دی تھی۔‘‘

اسی طرح امریکی مشہور اخبار نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل کی شہ سرخی ’نریندر مودی کے ساتھ بھارت میں تبدیلی‘ تھی۔ اس اخبار نے احتیاط کا لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’ مودی نے اقتصادی بحالی کے لیے اپنی حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینے کی صورت میں وہ یہ اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے، مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف بیانات دینے کی صورت میں۔‘‘

نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل کے مطابق مستقبل کا سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ آیا مودی اقتصادی بحالی کے لیے معاشی اصلاحات کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر فرقہ وارانہ ایجنڈا مسلط کرتے ہیں۔