1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی حکومت کی مغل شہزادے داراشکوہ میں اتنی دلچسپی کیوں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
18 فروری 2020

مغل بادشاہوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کرنے والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکومت کی مغل شہزادے داراشکوہ میں دلچسپی ان دنوں مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Xx0x
تصویر: Mohsin Javed

اس پیش رفت کو تاہم مسلمانوں کو’’اچھے مسلمان‘ اور 'برے مسلمان‘ میں تقسیم کرنے کی حکومت کی دیرینہ پالیسی کے حصہ کے طورپردیکھا جارہا ہے، جس میں حکومت داراشکوہ کو ایک ”آئیڈیل بھارتی مسلمان" کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔

مودی حکومت کی وزارت سیاحت نے گزشتہ دنوں ماہرین کی ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور اسے تین ماہ کے اندر داراشکوہ کی قبر تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم یہ کام کافی مشکل ہے کیوں کہ دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں دفن مغل خاندان کے 140 سے زیادہ افراد میں سے شہنشاہ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے اور اورنگ زیب کے  بھائی داراشکوہ کی قبر تلاش کرنا آسان نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی قبر پر اس میں دفن شخص کا نام لکھا ہوا نہیں ہے۔

 حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی داراشکوہ سے محبت میں حالیہ دنوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے راشٹر پتی بھون(پریزیڈنٹ ہاؤس) کے قریب واقع ڈلہوزی روڈ کا نام بدل کر داراشکوہ روڈ کردیا جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داراشکوہ کے نام پر ایک ریسرچ چیئر قائم کردی گئی۔

دارہ شکوہ کی برسی پر آر ایس ایس کے ایک ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں آر ایس ایس کے سینئر رہنما کرشنا گوپال نے داراشکوہ کو ’حقیقی بھارتی‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اورنگ زیب کی جگہ داراشکوہ مغل بادشاہ ہوتے تو بھارت میں اسلام کو پھلنے پھولنے کا زیادہ موقع ملتا۔

ہندو قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں آج داراشکوہ جیسے لبرل مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے ہندو اور اسلامی روایات کے درمیان اشتراک کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے دیگر کتابوں کے علاوہ بھگوت گیتا اور ہندوؤں کی انتہائی قابل احترام سمجھی جانے والی 52 اپنیشدوں کا بھی فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔

داراشکوہ کون تھے؟

 ’داراشکوہ دی مین ہو ووڈ  بی کنگ‘ کے مصنف ایوک چندا کا کہنا ہے کہ داراشکوہ کی شخصیت انتہائی کثیر الجہت اور پیچیدہ تھی۔ وہ ایک بہت ہی پرجوش انسان، ایک مفکر، باصلاحیت شاعر،اسکالر، اعلٰی درجے کے صوفی اور فنون لطیفہ کا علم رکھنے والے شہزادے تھے لیکن انہیں انتظامیہ اور فوجی امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شاہ جہاں نے انہیں فوجی مہمات سے دور رکھا جبکہ اورنگ زیب کو صرف سولہ برس کی عمر میں ایک بڑی فوجی مہم کی کمان سونپ دی۔

Indien Neu Delhi Grabmal des Moghul-Kaisers Humayun
تصویر: Mohsin Javed

شاہ جہاں کی علالت کے بعد جانشینی کی جنگ میں جب داراشکوہ اورنگ زیب سے ہار گئے تو انہیں گرفتار کرکے دہلی لایا گیا۔ فرانسیسی مورخ فرانسواں برنیئر نے اپنی کتاب ’ٹریولز ان مغل انڈیا‘ میں اس کے بعد کا انتہائی درناک منظر بیان کیا ہے۔ برنیئر نے لکھا ہے کہ داراشکوہ کو انتہائی بے عزتی کے ساتھ ایک ہاتھی پر بٹھاکر دہلی کی سڑکوں پر گھمایا گیا۔ دارا کے پاؤں زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔اس کے ایک روز بعد اورنگ زیب کی عدالت نے داراشکوہ پر توہین اسلام کا الزام عائد کرتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔ بعد میں اورنگ زیب کے دو ملازمین نے داراشکوہ کی گردن اڑا دی۔ داراشکوہ کا کٹا ہوا سر اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا جس پر اورنگ زیب نے اسے آگرہ میں شاہ جہاں کے پاس بھجوانے کا حکم دیا جہاں اسے تاج محل کے صحن میں د فن کرادیا گیا جب کہ اُن کے دھڑ کو دہلی میں انہیں راستوں پر گھمایا گیا جہاں داراشکوہ کو زندہ گھمایا گیا تھا۔ بعد میں اس دھڑ کو ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔

دارشکوہ کی قبر کون سی؟

داراشکوہ کی قبر تلاش کرنے والی ماہرین کی کمیٹی کے ایک رکن ماہر آثار قدیمہ کے کے محمد کا کہنا ہے ”کوئی بھی حتمی طورپریہ نہیں کہہ سکتا کہ داراشکوہ کی قبر کون سی ہے۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ یہ ہمایوں کے مقبرہ کے احاطے میں ایک چھوٹی سی قبر ہے۔ بیشتر لوگ ایک مخصوص چھوٹی قبر کے متعلق کہتے ہیں کہ وہی دارشکوہ کی قبر ہے۔“ 

کمیٹی کے ایک دیگر رکن بی آر منی کے مطابق” احاطے میں واقع ایک قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہی داراشکوہ کی قبر ہے۔ یہ ہمایوں کے مقبرہ کے مغربی حصے میں ایک جگہ پر واقع ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگ نسل درنسل یہ بات سنتے چلے آرہے ہیں اور محکمہ آثار قدیمہ کے بعض سینئیر افسران بھی ایسا ہی خیال رکھتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔"

 ماہرین کی کمیٹی کی ابھی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی قبر کی تلاش کے سلسلے میں کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے تاہم ماہر آثار قدیمہ کے کے محمد کا کہنا ہے ”ہم یقین کے ساتھ گو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن کامیابی کی اُمید تو بہر حال رکھنی ہی چاہیے۔ یہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ یہ کام پہلے ہی ہونا چاہیے تھا۔“

ج ا/ ک م