1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مودی حکومت اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام‘: ہیومن رائٹس واچ

جاوید اختر، نئی دہلی 29 جنوری 2016

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی حکومت اقلیتوں اور اظہار رائے کی آزادی کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hlmn
Indischer Premierminister Narendra Modi
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: AFP/Getty Images/I. S. Kodikara

ہیومن رائٹس واچ نے 2016ء کی اپنی رپورٹ میں حقوق انسانی کے حوالے سے عالمی سطح پر بھی مودی حکومت کے رویے پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ عالمی برادری میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی زبردست خواہش اور اپنی دیرینہ جمہوری روایات کے باوجود بھارت 2015ء میں اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کا کمزورحامی ثابت ہوا۔

رپورٹ میں اس سلسلے میں متعدد مثالیں دی گئی ہیں:’’2014ء میں غزہ پرفوجی حملے کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرانے کے حوالے سے جب اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی تو بھارت ووٹنگ سے غیر حاضر رہا اور یہ دلیل دی کہ اس قرارداد میں اسرائیل کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لانے کی بات کہی گئی تھی، جسے بھارت اس معاملے میں بے جا مداخلت سمجھتا ہے۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ نے ماورائے عدالت، سرسری سنائے جانے والے اور یک طرفہ فیصلوں کے سلسلے میں اقو ام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی رپورٹ کو بھارتی حکام کی طرف سے یکسر نظر انداز کر دیے جانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز اور حکام کو گرفت سے مستشنٰی قرار دینے والے قوانین کی نکتہ چینی کی ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’بھارت نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) جیسے بدنام زمانہ قانون کو نہ تو اب تک منسوخ کیا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی قابل ذکر ترمیم کی ہے‘۔

659 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں 90 ممالک میں2015ء میں حقوق انسانی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیات کے لیے سرگرم تنظیموں کو مودی حکومت نے خاص طور پر نشانہ بنایا کیوں کہ یہ تنظیمیں سرکار کے مبینہ ترقیاتی منصوبوں کو چیلنج کرتی رہتی ہیں۔ رپورٹ میں گرین پیس انڈیا کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے مذکورہ تنظیم اور فورڈ فاؤنڈیشن سمیت کئی دیگر تنظیموں کو نشانہ بنایا اور ان کی غیر ملکی امداد روک دی گئی۔ اسی طرح حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے سو ل سوسائٹی گروپوں کی نہ صرف فنڈنگ روک دی گئی بلکہ انہیں کئی طرح کی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے تیستا سیتلواد اور جاوید آنند جسے سماجی کارکنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جنہوں نے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں ملک مخالف قرار دے دیا گیا۔

Mayawati Mumari
صوبہ اترپردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ پسماندہ ذات کے دلتوں اور مسلمانوں کا استحصال کر رہی ہےتصویر: AP

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس رپورٹ کو نامکمل اور بھارت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ نے معاملات کے صرف ایک پہلو کو سامنے رکھا جب کہ اسے اپنی رپورٹ میں معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنا چاہیے تھا۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ مود ی حکومت نے’اظہار رائے اورمذہبی آزادی، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور پسماندہ طبقات کے استحصال کو روکنے کے لیے بھی کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا‘۔

ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کے سبب اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔حکام اقلیتوں پر پرتشدد حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ایک مسلمان کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اورجب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں بھی دھمکیاں دی گئیں۔

دلت رہنما، بہوجن سماج پارٹی کی صدر اور صوبہ اترپردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ پسماندہ ذات کے دلتوں اور مسلمانوں کا استحصال کر رہی ہے اور مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان فرقوں پر ظلم و زیادتی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مسلمانوں کے سلسلے میں بی جے پی کے رہنما اور وزراء جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں ان پر وزیر اعظم کی کوئی گرفت نہیں ہے اور اس طرح کے بیانات دے کر وہ ملک میں انتشار اور ٹکراؤ کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔

Verwandte von Mohammad Akhlaq, der von einem Mob gelyncht wurde
محمد اخلاق کے لواحقین اُس کی موت پر ماتم کناں ہیں، اُسے ایک مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھاتصویر: Reuters/Stringer

خیال رہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو روکنے میں حکومت کی ناکامی کے بعد ملک کے متعدد نامور فن کاروں، صحافیوں، ادیبوں، سماجی کارکنوں اور سائنس دانوں نے بھی حکومت کی طرف سے دیے گئے اعلی اعزازات احتجاجاً واپس کر دیے تھے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے سول سوسائٹی اور شہریوں کی تنقید کو دبانے کی کوشش سے ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تردید یا جوابی ردعمل کی بجائے حکومت کو تحمل اور پرامن مباحثے کو فروغ دینا چاہیے اور تشدد کرنے یا اسے فروغ دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

میناکشی گنگولی کا مزید کہنا ہے کہ بھارت عالمی معاملات میں زیادہ بڑا رول ادا کرنے کا خواہش مند رہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی مختلف مواقع پر اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں لیکن وہ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کے کمزور ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید