موت کا خطرہ آسانی سے مول لینے والے مہاجرین
28 اگست 2015آسٹریا کے ایک اخبار ’کرونے‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ہنگری میں ان افراد کی گرفتار کی خبر تو دی ہے تاہم اس رپورٹ میں کوئی مستند حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس خبر کے بارے میں جب آسٹریا کی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی۔ اسی طرح ہنگری کی پولیس نے بھی اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ واضح رہے کہ آسٹریا کے ہائی وے سے ملنا والا یہ ٹرک ہنگری میں رجسٹرڈ تھا۔
آسٹرین پولیس نے بتایا ہے کہ ابھی تک کی تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس مال بردار ٹرک نے اپنا سفر ہنگری میں بوڈاپیسٹ کے قریب سے شروع کیا تھا۔ پولیس کے بیان کے مطابق ٹرک میں سوار ان افراد کی لاشیں اس قدر گل سڑ چکی ہیں کہ ان کی شناخت میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں فورینزک ماہرین کی خدمات حاصل کی جا چکی ہیں۔ پولیس آج اس واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ کرے گی۔
دریں اثناء جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے آسٹریا میں رونما ہونے والے اس سانحے کے تناظر میں پناہ گزینوں کے لیے بہتر انتظامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ شٹائن مائر نے ایک بیان میں کہا کہ مہاجرین کے اندراج جیسے معاملات میں یونان، مقدونیا اور سربیا جیسے ممالک کی مدد کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی جرمن وزیر نے یورپی یونین کے رکن ملکوں میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دوسری جانب بحیرہ روم میں تارکین وطن سے بھری ایک کشتی کی غرقابی کے واقعے میں کم از کم دو سو افراد ڈوب گئے ہیں۔ کوسٹ گارڈز کے مطابق یہ کشتی لیبیا میں سوآرہ کے ساحلوں کے قریب حادثے کا شکار ہوئی اور اس پر تقریباً چار سو افراد سوار تھے۔ بتایا گیا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے دوران قریب دو سو تارکین وطن کو بچا لیا گیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوار زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔ لیبیا میں سوآرہ کا علاقہ تیونس کی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مجرموں کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔