موبائل فون سے کینسر کے خطرات
2 جون 201114 ممالک سے تعلق رکھنے والے 31 طبی ماہرین نے حال ہی میں ڈبلیوایچ او کی انٹر نیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر IARC کے ایک اجلاس میں حصہ لیا۔ موبائل فون کے صحت پر رونما ہونے والے ممکنہ مضر اثرات کے بارے میں ہونے والی بحث میں ان طبی ماہرین نے کہا کہ اب تک انہیں جتنے بھی سائنسی شواہد ملے ہیں، اُن سے یہی پتہ چلا ہے کہ موبائل فون ممکنہ طور پر سرطان کی بیماری کا موجب بن سکتا ہے۔
اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت کی انٹر نیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی طرف سے تیار کی گئی کینسر کے ممکنہ خطرات کی حامل اشیاء کی فہرست میں سیسہ یا الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والا دھاتی کنیکٹر، کلوروفام یا بیہوش کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا بھاری مائع اور کافی شامل تھی۔ اب اس میں موبائل فون کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو اب موبائل فون کے بارے میں اپنی گائیڈ لائنز پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ ابھی اس بارے میں بہت تفصیلی ریسرچ کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ موبائل فون کے کینسر کے مرض سے تعلق کے بارے میں کوئی جامع ثبوت نہیں ملا ہے۔ IARC کے چیئرمین جوناتھن سمٹ نے ایک ٹیلی بریفنگ میں کہا کہ موبائل فون اور کینسر کے عارضے کے مابین تعلق کے بارے میں تمام ضروری شواہد پر دوبارہ غور و خوض کے بعد ایجنسی کے ورکنگ گروپ نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ریڈیو فریکونسی الیکٹرو میگنیٹک فیلڈزممکنہ طور پر انسانوں کے اندر سرطان کا موجب بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے شواہد ملے ہیں، جو موبائل فون کے استعمال سے Glioma کے خطرات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ ایک خاص قسم کا برین کینسر یا دماغی سرطان ہوتا ہے۔ 1980ء میں موبائل فون متعارف کرائے جانے کے بعد سے اس کا استعمال بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کم از کم پانچ بلین موبائل فون زیر استعمال ہیں۔ یہ روز مرہ زندگی کا ایک ایسا اہم حصہ بن چکا ہے کہ صنعتی ماہرین کے خیال میں صحت کو لاحق خطرات کے باجود صارفین اس کے استعمال سے باز نہیں آئیں گے۔ موبائل فون کمیونیکیشن کے علاوہ ویب سرفننگ کے لیے بھی بہت زیادہ بروئے کار لایا جانے لگا ہے۔
موبائل فون بنانے والی ایک معروف پرائیوٹ کمپنی Avian Securities کے ایک تجزیہ نگار میتھیو تھورنٹن کے بقول ’ صارفین کے رویے میں تبدیلی کے لیے قائل کرنے والے ٹھوس دلائل کی ضرورت ہے‘۔
اُدھر موبائل فون کی صنعت ڈبلیو ایچ او کی اس نئی تحقیق کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ سرطان زا اشیاء میں اور بھی چیزیں شامل ہیں مثلاً سبزیوں کا اچار اور کافی وغیرہ۔
امریکہ میں قائم وائرس ایسوسی ایشن CTIA کے پبلک افیئرز شعبے کے نائب صدر جان والز نے تاہم کہا ہے کہ IARC کے بیانات کا یہ مطلب نہیں کہ موبائل فونز کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایجنسی نے اس بارے میں کوئی نئی ریسرچ نہیں کی ہے بلکہ پہلے شائع ہونے والی رپورٹ پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے کہا ہے کہ موبائل فون کے صحت پر مُضر اثرات کے بارے میں ٹھوس سائنٹیفک شواہد نہیں پائے جاتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی