موبائل فون رکھنے پر بھی صنفی امتیاز؟
26 فروری 2016یہ پابندی حالیہ ہفتوں میں یہ کہہ کر عائد کی گئی ہے کہ موبائل فون لڑکیوں کی پڑھائی میں خلل کا سبب بنتا ہے اور اس لیے اُن کی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ گجرات کے ڈسٹرکٹ مہسانا اور بانسکانتھا کے چند گاؤں میں چند ہفتوں قبل ہی لڑکیوں اور غیر شادی شدہ خواتین کے موبائل فون رکھنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اسکے بعد سے زیادہ سے زیادہ دیہات اس قانون کر اپنے ہاں لاگو کر رہے ہیں۔
مہسانا کی ڈسٹرکٹ کونسل کے صدر رنجیت سنگھ ٹھاکر نے کے مطابق زیادہ سے زیادہ دیہات میں اس پابندی کا اطلاق ہونے جا رہا ہے اور یہ 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور غیر شادی شدہ خواتین پر لاگو ہوگا۔ روئٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، ’’لڑکیاں موبائل فون کی وجہ سے اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتیں اور ہر طرح کی بُری چیزوں کا تجربہ کر سکتی ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا،’’لڑکیوں کو پہلے شادی شُدہ ہو جانے دیں پھر وہ اپنا موبائل فون رکھ سکتی ہیں۔ تب تک اگر ضروری ہو تو وہ گھر پر اپنے والد کا فون استعمال کریں۔‘‘
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ بھارت میں اس طرح کے فیصلے کیے گئے ہوں۔ مغربی بہار کی ریاست میں اس قسم کی پابندی چند سال پہلے ہی عائد کر دی گئی تھی۔ تب اس پابندی کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ موبائل فون لڑکیوں اور خواتین کو گمراہ کرنے اور ان کا سماجی ماحول خراب کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے سرگرم عناصر نے اس پر کڑی تنقید کی تھی اور اسے عورتوں کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح خواتین کو معاشرے میں تحفظ سے محروم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بھارت موبائل فون کے حوالے سے دنیا کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ اس ملک میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد ایک بلین سے زیادہ ہے۔
ریاست گجرات میں خواتین اور لڑکیوں کے موبائل فون رکھنے پر پابندی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسی ریاست سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی ’ڈیجیٹل انڈیا‘ کی اپنی پیش قدمی کو تیز رفتاری سے آگے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا مقصد بھارت کے دیہی علاقوں کو تیز رفتار انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جوڑنا ہے۔
ڈسٹرکٹ مہسانا میں اس پابندی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اکیس سو روپے یا 31 ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے ہوگا اور اس خلاف ورزی کے مُخبر کو بھی انعام سے نوازا جائے گا۔
مہسانا کی ڈسٹرکٹ کونسل کے صدر رنجیت سنگھ ٹھاکر نے تاہم کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کی طالبات کو استثنا حاصل ہوگا کیونکہ انہیں اپنی تعلیم کے حصول میں موبائل فون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ٹھاکر نے کہا کہ اس پابندی کے قانون کو ریاست گجرات کے تمام طبقوں اور ذات اور نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنایا ہے۔