1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد، دنیا کے لیے ایک مثال

3 اکتوبر 2023

جرمنی کو دوبارہ متحد ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ اس ملک نے مثالی ترقی کی ہے۔ تاہم خود جرمن سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ملک سیاسی طور پر متحد تو ہو گیا ہے مگر تقسیم کی لکیروں کے نشان ابھی باقی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4X4ac
DW Mitarbeiterportrait | Kishwar Mustafa
تصویر: Philipp Böll/DW

تین اکتوبر جرمنی کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔ 33 برس قبل آج کے دن یورپ کے قلب میں واقع  ٹوٹا ہوا یہ ملک دوبارہ متحد ہوا تھا۔ جن مشکل حالات سے گزر کر اور کٹھن سفر کو طے کرتے ہوئے جرمن قوم نے اس خوش آئند تاریخی واقعے کا تجربہ کیا وہ  قابل ستائش ہے۔

تاہم اس کامیابی کا سہرا جرمن معاشرے کے ہر فرد کے سر ہے۔ سب سے بڑھ کر جرمنی کے سیاستدانوں، احباب اختیار اور ملک کے محافظین کے سر، جنہوں نے اپنے ملک اور قوم کو ایک مثالی ملک اور قوم بنانے کے لیے جانفشانی، خلوص دل اور ایمان داری کا ثبوت پیش کیا۔

یورپ کی تاریخ میں انقلاب فرانس اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد دو ایسے واقعات ہیں، جنہوں نے یورپی سیاسی منظر نامے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ جرمنی کا دوبارہ متحد ہونا اُس وقت کی ایک سُپر پاور یعنی سوویت یونین کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا موجب بھی بنا۔

اُدھر جرمنی کی تقسیم اور اسے چار حصوں میں بانٹ کر چار سُپر پاورز کے حوالے کرنے کے تاریخی واقعے کے مضمرات پر روشنی ڈالنے والے ماہرین یہ اندازے لگاتے رہے کہ جرمنی کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کا عمل کس حد تک پائیدار تھا اور یہ کہ کیا کسی ملک کی تقسیم وہاں کے عوام کے دلوں کو بھی ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جُدا کر سکتی ہے؟

جرمنی کا ٹوٹنا اور اس کی دو حصوں میں تقسیم سے زیادہ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا عمل حیران کنُ اور کافی حد تک تیز رفتار نظر آتا ہے۔ گو کہ یہ تقسیم پینتالیس سال کے عرصے پر محیط ہے لیکن جرمنی کا دوبارہ اتحاد 1989ء میں دیوار برلن کے گرنے کے ایک سال بعد ہی، جس انداز میں عمل میں آیا، وہ حیران کُن اور کافی حد تک قابل رشک تھا۔

 یہ ضرور ہے کہ دو بالکل مختلف طرز حکومت اور سیاسی نظام کی حامل ریاستیں یعنی ''جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک‘‘ جی ڈی آر یا مشرقی جرمنی، جو سوویت یونین کی حکمرانی میں تھا اور جہاں کمیونسٹ نظام حکومت پایا جاتا تھا اور جمہوری نظام حکومت والی وفاقی جمہوریہ جرمنی یا مغربی جرمنی، جو امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے زیر اثر تھا، کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورتحال ایک دوسرے سے بہت مختلف تھی۔ اس کے باوجود منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد قدرے پُر امن اور خوش اسلوبی سے انجام پایا۔

جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو دراصل جنگ اور ٹوٹ پھوٹ کی شکار جرمن قوم کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کو جب یکے با دیگرے جنگ، جارحیت اور شکست و ریخت کا سامنا پڑے تو اُس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے، اُس کا بنیادی ڈھانچہ مسمار ہو جاتا ہے اور اُس کے عوام کے اندر خود انحصاری اور خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔

ایسے میں کوئی مضبوط، ایماندار اور پُر خلوص لیڈر ہی اس قوم کی نشاۃ ثانیہ کا سبب بن سکتا ہے۔ جرمنی کو ایک ایسے ہی نازک وقت پر اُس لیڈر کا سہارا ملا، جسے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا معمار کہا جاتا ہے۔ یہ تھے مشہور زمانہ جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل، جو 1982 ء میں مغربی جرمنی کے چانسلر بنے تھے اور 16 سال تک یعنی 1998 ء تک جرمن چانسلر رہے۔

 1989 ء میں دیوار برلن کا انہدام اور ایک ہی سال بعد یعنی 1990ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد عمل میں آیا۔ ہیلموٹ کوہل نے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد نہایت تیز رفتاری سے جرمنی کو نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر وقار اور عروج کی علامت بنانے کی کوشش کی۔

جرمنی جو اب پورپ کی اقتصادی شہ رگ مانا جاتا ہے، اس ملک میں جرمن مارک رائج تھا، جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد ایک متحدہ یورپی کرنسی یعنی یورو کا اجرا ہوا اور جرمنی نے جرمن مارک کو ترک کر دیا۔

ہیلموٹ کوہل کے بعد، جس سیاسی لیڈر اور قائد نے جرمنی کو دنیا کے ترقیافتہ ترین ممالک اور ایک مضبوط عالمی قوت بنایا، وہ تھیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر انگیلا میرکل، جنہوں نے اپنے ''سیاسی گورو‘‘ ہیلموٹ کوہل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 16 سال تک جرمنی کی بطور چانسلر قیادت کی۔

 اپنی ایمانداری اور بُردباری کا لوہا منوایا اور عالمی سطح پر '' آئرن لیڈی‘‘ کے طور پر پہچانی جانے لگیں۔ میرکل کے لیے تاہم اپنی شہرت سے کہیں زیادہ اہمیت اپنے ملک کے وقار کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تین سال قبل تین اکتوبر کو یوم اتحاد کے موقع پر انہوں نے بطور چانسلر اپنی آخری تقریر میں کہا تھا کہ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی تین دہائیاں مکمل ہونے کے باوجود اس ملک کو اب بھی جمہوری نظام کے تحفظ اور تسلسل کے لیے جدو جہد جاری رکھنا ہو گی۔

جرمنی کے  دوبارہ اتحاد کے 33 سال مکمل ہونے پر آج یعنی تین اکتوبر 2023 ء کو بھی ایک چوٹی کے جرمن سیاستدان نے، جو بیانات دیے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومیں کیسے بنتی ہیں، انہیں صحیح سمت چلانے والے کون ہونے چاہییں اور قوم اور ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے کوششوں کے ساتھ ساتھ ایمانداری سے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا اور اُس میں پائی جانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیرک اور باشعور رہنما کس سوچ کے حامل ہونے چاہییں؟

جرمنی کے وزیر مملکت برائے امور مشرقی جرمنی کارسٹن شنائیڈر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا،'' دیوار برلن کے گرنے کے تین دہائیوں بعد، جرمنی سیاسی طور پر متحد ہے لیکن تقسیم کی لکیریں ابھی باقی ہیں۔‘‘

کارسٹن شنائیڈر کا مزید کہنا تھا، ''دوبارہ اتحاد مکمل ہو گیا ہے تاہم یہ عمل ہنوز کامل نہیں ہے۔ دوبارہ اتحاد کو لوگوں کے ذہنوں میں مکمل طور پر محسوس کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘

اگر دنیا بھر کے سیاستدان اور قائدین ایمانداری، بردباری، خلوص اور اپنی ذاتی انا اور مفادات سے بالاتر ہو کر جرمن سیاستدانوں اور لیڈروں کی طرح کی سوچ اور رویہ اپنائیں تو دنیا کے بہت سے خطوں اور ملکوں میں پائی جانے والی دراڑیں، دیواریں اور تقسیم مٹانا ممکن ہو سکتا ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ کمی سیاسی لیڈروں کی ایمانداری، خلوص نیت اور اپنے ملک اور قوم سے وفا کی پائی جاتی ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔