ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں بھی ہوئی
12 فروری 2009ممبئی حملوں کی تحقیقاتی رپورٹ پر اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر ستیا برتا پال کو بریفنگ دینے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں مشیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ان حملوں کی کچھ منصوبہ بندی پاکستان میں بھی کی گئی اور اس ضمن میں بقول ان کے جن آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں سے 6 زیر حراست جبکہ 2 تاحال مفرور ہیں۔ رحمن ملک نے پہلی مرتبہ سرکاری طور پر اس امر کا اعتراف کیا کہ ان افراد کا تعلق کالعدم جہادی تنظیم لشکر طیبہ سے ہے اور ان کے خلاف تعزیرات پاکستان انسداد دہشت گردی ایکٹ ا ور سائبرکرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ان حملوں کی سازش کے ڈانڈے امریکہ، روس، سپین اور اٹلی سے بھی ملتے ہیں۔ اس لئے پاکستانی اداروں نے مجرموں کو پکڑنے کے لئے انٹر پول اور ایف بی آئی سے بھی تعاون کی اپیل کی ہے اور آئندہ دنوں میں مزید انکشافات متوقع ہیں تاہم مشیر داخلہ نے بھارتی حکام پر زور دیا کہ وہ تفتیش کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستانی حکام کے ساتھ تعاون کریں اور اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے 30 سوالات کے جوابات کے علاوہ مزید معلومات بھی فراہم کریں۔
’’ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ یہاں کے ہیں تو وہ غیر ریاستی عناصر ہیں آپ نے دیکھا کہ 9/11 کے واقعہ میں سعودی، مصری اور دوسرے ملکوں کے لوگ بھی ملوث تھے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ایک ریاست یا اس کی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔ یہ غیر ملکی عناصر تھے جن کا مقصد اپنے مقاصد کے حصول کےلئے دہشت گردی پھیلانا تھا۔‘‘
رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان نے ممبئی حملوں میں بچ جانے والے ملزم اجمل قصاب کے اقبالی بیان اور فنگر پرنٹس کے علاوہ ہلاک کئے گئے دیگر 9 دہشت گردوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس مانگی ہیں تا کہ ان کی روشنی میں ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا جا سکے۔
’’یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت مل کر کام کریں۔ میری بھارتی حکام سے درخواست ہے کہ آئیں مل کر ان دہشت گرد عناصر کے خلاف اقدامات کریں اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔‘‘
مبصرین کے خیال میں پاکستان نے انتہائی مہارت کے ساتھ بھارت کے پاکستان پر مرتکز پراپیگنڈے کے اثرات کو زائل کر کے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پوری دنیا میں سرگرم ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے ایک متحدہ بین الاقوامی کوشش درکار ہے۔