1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈائنا سورز ممالیہ جانور کا شکار رہے: نایاب فوسل کی دریافت

22 جولائی 2023

چین میں ممالیہ جانوروں سے متعلق ایک غیر معمولی دریافت سے پتا چلا ہے کہ یہ جانور کھانے کے لیے ڈائیناسورز کا شکار کیا کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4UElW
Wissenschaft Säugetiere Dinosaurier
تصویر: Gang Han/Canadian Museum of Nature/AP/picture alliance

 

چین میں ایک فوسل یا زمین سے کھود کر نکالے ہوئے ایک قدیم ڈھانچے سے ایسے نقوش ملے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ بیجر یا بجو نما جانور چھوٹی چونچ والے ڈائناسورز کو چیر پھاڑ کر کھایا کرتے تھے۔ ان ڈائنا سورز کے پنجر یا ڈھانچے بُری طرح ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے دکھائی دیے۔

یہ فوسل چین کے ایک ایسے قدیمی آثار سے ملے ہیں جس علاقے کو ''چین کے پومپئی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال پرانے آتش فشاں کے کیچڑ اور ملبے میں  بہت سی نایاب مخلوقات  دفن ہیں۔

''پومپئی‘‘ کی تعریف

پومپئی دراصل ایک قدیم رومی شہر تھا جو موجودہ یورپی ملک اٹلی کے علاقے کمپانیا میں نیپلز کے نزدیک واقع تھا۔ یہ شہر ساتویں قبل مسیح کے دوران آباد ہوا۔ رومن سلطنت کے دور میں اس شہر نے بے حد ترقی کی اور تب وہاں واٹر چینلز، تالاب، سڑکیں لائبریریاں اور کمیونٹی سینٹرز کے علاوہ گھوڑوں کے اصطبل اور دو منزلہ مکانات جن کے ارد گرد باغات اور ہسپتال وغیرہ کی تعمیر ہوئی۔ یہی وہ پہلا شہر تھا جہاں جگہ جگہ فوارے نصب تھے۔

Wissenschaft Säugetiere Dinosaurier
ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ڈائنا سورز کے پنجر تصویر: Gang Han/Canadian Museum of Nature/AP/picture alliance

یہی وہ شہر ہے جہاں سب سے پہلے زیبرا کراسنگ کا رواج شروع ہوا تھا اور اجتماعی حمام کے تصور نے بھی یہیں سے جنم لیا تھا۔ قریب 80 ویں عیسوی میں اس شہر کے نزدیک کا ایک آتش فشاں پہاڑ پھوٹ پڑا۔ اس کی شدت اس قدر تھی کہ ہزاروں افراد دیکھتے ہی دیکھتے آتش فشاں کے لاوے میں گھُل گئے۔ پورا شہر راکھ کے نیچے دفن ہو گیا۔

چینی پومپئی کے فوسلز

سائنسی رپورٹس کے جریدے میں ''چینی پومپئی‘‘ کے فوسلز کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ان سے قریب 125 ملین سال پہلے، کریٹاسیئیس دور کی دو مخلوقات کا پتا چلتا ہے۔ گو کہ ایڈنبرا یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات اسٹیو بروسیٹ اس مطالعے میں شریک نہیں تھے تاہم انہوں نےایک ای میل میں تحریر کیا، ''ایسا لگتا ہے کہ یہ پری ہسٹورک یا قبل از تاریخ دور میں کیے گئے شکار سے حاصل کردہ باقیات ہیں، جو پتھر میں منجمد فریم کی طرح قید ہیں۔‘‘

Wissenschaft Säugetiere Dinosaurier
یہ فوسل چین کے ایک قدیمی آثار سے ملے ہیں تصویر: Gang Han/Canadian Museum of Nature/AP/picture alliance

اس مطالعے کے مصنف، کینیڈین میوزیم آف نیچر سے منسلک ڈائنا سورز کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے محقق جورڈن میلن کہتے ہیں کہ اگرچہ ممالیہ ڈائنا سور کے مقابلے میں کہیں چھوٹا جانور ہوتا ہے، لیکن جب یہ دونوں آتش فشاں کے بہاؤ کی لپیٹ میں آئے توممالیہ نے ڈائنا سور پر حملہ کیا۔ وہ ڈائنا سور پر بیٹھا، اس کے پنجوں نے ڈائنا سور کے جبڑے اور عقبی اعضا کو اپنے داتوں سے جکڑ لیا جبکہ اس کے دانت ڈائنا سورز کی پسلیوں میں گھس گئے۔ مولن کا کہنا تھا،''میں نے اس طرح کا فوسل پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

 

Fossilien zeigen wieso Säugetiere gut Hören
ممالیہ جانور سننے کی بہت خاص صلاحیت رکھتے ہیںتصویر: AFP/Mao et al., Science/C. Zhao

 پہلے کا ایک مفروضہ

اس تازہ ترین مطالعے کی بنیاد پر پیش کردہ مفروضے سے پہلے ایک یہ نظریہ بھی پایا جاتا تھا کہ ممالیہ ڈائنا سورز کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت ''چینی پمپئی‘‘ سے ملنے والے ایک اور فوسل سے بھی ملتا ہے جس میں ایک مردہ ممالیہ کی آنت میں ڈائنا سور کی باقیات پائی گئیں۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ممالیہ جانور اپنے سائز سے کئی گنا زیادہ بڑے سائز کے  ڈائناسورز کا شکار کیا کرتے تھے۔

 

ک م/ ع ت ( ایسوسی ایٹڈ پریس)