1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائیشیا میں انور ابراہیم کے کیس پر فیصلہ پیر کو

5 جنوری 2012

جب ملائیشیا کی ہائی کورٹ پیر کو حزب اختلاف کے رہنما انور ابراہیم کے کیس پر فیصلہ سنائے گی، تو یہ نہ صرف قوم کے سب سے زیادہ متنازعہ کیس کے ختم ہونے کی نشانی ہو گی بلکہ ایک نئے سیاسی دور کا آغاز بھی ہو گا۔

https://p.dw.com/p/13eaB
ملائیشیا کے حزب اختلاف کے رہنما انور ابراہیم
ملائیشیا کے حزب اختلاف کے رہنما انور ابراہیمتصویر: AP

اگر 64 سالہ انور مجرم پائے گئے تو انہیں بیس سال قید کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے 2008ء میں ایک 24 سالہ مرد کے ساتھ ناجائز جنسی روابط اُستوار کیے تھے۔ انور نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے اور انہوں نے مزید کہا ہے کے یہ سیاسی دشمنوں کی طرف سے گھڑی گئی ایک کہانی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران، جو فروری 2010 ء میں شروع ہوا، ان کے وکلاء نے کہا کہ دفاع میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بار بار کی گئی تھی، اس حد تک کہ انہیں گواہوں اور شواہد تک رسائی دینے سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انور ان کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں۔ بہت سے تعلیم یافتہ شہری ووٹرز کرپشن اور افراط زر کی وجہ سے پریشان ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں انور کے اتحاد نے ملک کی 13 ریاستوں میں سے 5 میں کامیابی حاصل کر لی تھی حتیٰ کہ حکومت بنانے کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ وزیر اعظم انور کی طرف سے درپیش خطرے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق
ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاقتصویر: picture-alliance/dpa

اگر انور بے قصور پائے جاتے ہیں تو وہ نجیب کے لئے اصل خطرہ بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر انور کو صرف ایک سال کی بھی سزائے قید سنائی جاتی ہے تو وہ اگلے پانچ سال تک کے لیے سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ تاہم انور کے حامی بہت زیادہ پُرجوش ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے سنایا جانے والا فیصلہ انور یا اُن کے حامیوں کو ملائیشیا کی سیاست سے خارج نہیں کر سکے گا۔

رپورٹ: راحل بیگ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید