’’مقدمے کا سامنا کروں گا، لیکن صحتیاب ہونے کے بعد‘‘ مشرف
3 ستمبر 2017اتوار کے دن پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جاری ہونے والے ایک بیان میں پرویز مشرف نے کہا کہ راولپنڈی میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف نہیں ہے، ’’میں مکمل طور پر صحتیاب ہوتے ہی یقینی طور پر پاکستان واپس آؤں گا اور مقدمے کا سامنا کروں گا۔‘‘ سابق سربراہ مملکت نے مزید کہا کہ انہیں سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا ہے، ’’ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی غیر متوقع اور اندوہناک ہلاکت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور ملزم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث پانچ دیگر افراد کو بری کر نے کا حکم دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشرف کی جائیداد بھی ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔
پیپلز پارٹی رہنما بے نظیر کے مقدمہ قتل کے فیصلے سے مایوس
'بے نظیر کے قاتلوں تک پہنچنے میں کسی کو دلچسپی نہیں‘
’’بےنظیر بھٹو کا قتل روکا جا سکتا تھا‘‘، نئی کتاب
27 دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد یہ پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر الزام ہے کہ وہ اس قتل کے لیے تیار کی گئی وسیع سازش میں ملوث تھے۔ 2013ء میں ان پر قتل، قتل کی مجرمانہ سازش اور قاتلوں کو سہولت فراہم کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
مشرف نے مزید کہا کہ انہیں بے نظیر کی ہلاکت سے کوئی منفعت حاصل نہیں ہوئی، ’’میرے خلاف یہ پورا مقدمہ غلط، جعلی، من گھڑت اور سیاسی تعصب کا نتیجہ ہے۔‘‘
بے نظیر کی ہلاکت: کس نے کیا کہا؟
بے نظیر قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے: حکومت پاکستان
اسے سابق فوجی سربراہ کے خلاف ایک عجیب فیصلہ اقدام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ عام تاثر ہے کہ فوج کے سربراہ کو استثنی حاصل ہے۔
2010ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مشرف حکومت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ بے نظیر بھٹو کو مناسب تحفظ دینے میں غفلت کی مرتکب ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ سلامتی کے مناسب انتظامات کی صورت میں قتل کی اس واردات کو روکا بھی جا سکتا تھا۔
پرویز مشرف گرشتہ تین برسوں سے دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرف دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود پر عائد کیا گیا تھا، جسے بیت اللہ محسود نے مسترد کر دیا تھا۔