1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقتولہ لڑکی نے قرآن کی بے حرمتی نہیں کی تھی، افغان تفتیش کار

عاطف توقیر22 مارچ 2015

افغانستان میں گزشتہ ہفتے قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن کر ہلاک ہونے والی لڑکی بے گناہ تھی، یہ بات افغانستان کے چیف تفتیش کار نے اتوار کے روز کہی۔

https://p.dw.com/p/1EvGV
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

جرائم کی تفتیش کرنے والے افغانستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار جنرل محمد ظاہر نے اتوار کے روز صحافیوں کو بتایا کہ 27 سالہ مقتولہ لڑکی فرخندہ پر قرآن کو نذر آتش کرنے کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا کہ مشتعل ہجوم اس لڑکی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، جب کہ پولیس اہلکار کھڑے مداخلت کرنے کے بجائے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس لڑکی کو بعد میں اُس ہجوم نے دن دہاڑے جلا ڈالا تھا۔ یہ واقعہ جمعرات کے روز کابل کے مرکزی علاقے میں پیش آیا تھا۔

جنرل محمد ظاہر نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’گزشتہ شب میں نے تمام دستاویزات کا جائزہ لیا اور ایک مرتبہ پھر تمام شواہد دیکھے مگر مجھے کہیں کوئی ایسی شہادت یا ثبوت نہیں ملا، جس سے یہ ظاہر ہو کہ فرخندہ نے قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا تھا۔ فرخندہ مکمل طور پر معصوم تھی۔‘

Afghanistan Lynchmord an Frau Beerdigung
اس لڑکی کے جنازے میں سینکڑوں افراد شریک ہوئےتصویر: AFP/Getty Images/W. Kohsar

محمد ظاہر نے اس واقعے میں ملوث آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 13 زیر حراست افراد سخت سزا دینے کا وعدہ کیا۔

اس واقعے کی مذمت صدر اشرف غنی اور دیگر افغان حکام نے کی تھی، تاہم ملک کے متعدد مذہبی حلقوں کی جانب سے اس واقعے پر خوشی کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ ان مذہبی رہنماؤں کا موقف تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد نے ’اسلام کے تحفظ‘ کے لیے یہ قدم اٹھایا۔

واضح رہے کہ فرخندہ اسلامیات کی استانی تھی۔ اس کے بھائی نجیب اللہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ وہ کسی طرح کی ذہنی بیماری کا شکار نہیں تھی اور اس کے والد کی جانب سے فرخندہ کے خراب ذہنی توازن کی بات اس لیے کی گئی، کیوں کہ پولیس نے انہیں سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور شہر چھوڑ کر اپنی حفاظت آپ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ’’میرے والد خوف زدہ تھے، انہوں نے لوگوں کو پرسکون کرنے کے لیے یہ جھوٹا بیان دیا۔‘

اتوار کے روز سینکڑوں افراد نے اس مقتولہ لڑکی کی آخری رسومات میں شرکت کی اور ’ہمیں انصاف چاہیے‘ کے نعرے لگائے۔ اس لڑکی کا جنازہ خواتین نے اٹھا رکھا تھا۔