1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی ایتھوپیا میں 100 سے زائد افراد قتل

24 دسمبر 2020

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مغربی ایتھوپیا میں بدھ کے روز بندوق برداروں نے ایک سو سے زائد شہریوں کو قتل کردیا۔

https://p.dw.com/p/3nB9B
Äthiopien I Situation in der Region Tigray
تصویر: Tiksa Negeri/REUTERS

نامعلوم بندوق برداروں نے مغربی ایتھوپیا کے بولین صوبے میں بیکوجی گاوں پر حملہ کر کے 100 سے زائد لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اس علاقے میں گوموز سمیت متعدد نسلی گروپ آباد ہیں۔

یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا، جب صرف ایک دن قبل ہی وزیر اعظم آبی احمد، ان کی فوج کے سربراہ اور دیگر اعلی وفاقی عہدیداروں نے، حالیہ دنوں میں پیش آنے والے ایسے ہی دیگر ہلاکت خیز واقعات کے بعد پیدا شدہ کشیدگی کو دور کرنے کی امید میں، اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔

سن 2018 میں آبی احمد کے اقتدار سنبھالنے اور ملک میں متعدد جمہوری اصلاحات کے عمل میں تیزی لانے کے بعد سے ہی افریقہ کا یہ دوسرا سب سے بڑی آبادی والا ملک کشیدگی اور ہلاکت خیز پرتشدد واقعات سے مسلسل دوچار ہے۔ بعض اصلاحات کی وجہ سے علاقائی حریفوں پر ریاست کی آہنی گرفت کمزور ہوئی ہے۔

ایتھوپیا میں اگلے برس انتخابات ہونے والے ہیں جس کی وجہ سے زمین، اقتدار اور وسائل پر اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں کے سبب کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ نسلی کشیدگی وزیر اعظم آبی احمد کے لیے ایک بڑاچیلنج ہیں، جو 80 سے زائد مختلف نسلی گروپوں والے اس ملک میں اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Äthiopien Abiy Ahmed
یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب ایک دن قبل ہی وزیر اعظم آبی احمد نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔تصویر: Amanuel Sileshi/AFP

ایک کھیت میں 80 سے زائد لاشیں

مغربی قصبے بولین کے ایک کسان بیلے وزیرا نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز ہونے والے حملے کے بعد اپنے گھر کے قریب واقع ایک کھیت میں کم از کم 82  لاشیں دیکھی تھیں۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ گولیاں چلنے کی آوازوں سے ان کی اور ان کے گھر والوں کی نیند سے آنکھیں کھلیں اور وہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دوران لوگ چلا رہے تھے 'انہیں پکڑو، انہیں پکڑو‘۔ اس حملے میں ان کی بیوی اور پانچ بچے گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی کمر میں بھی گولی لگی ہے جب کہ ان کے چار بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔

اسی قصبے کے ایک اور رہائشی حسن یمامہ نے بتایا کہ مسلح افراد نے مقامی وقت کے مطابق تقریبا ً صبح چھ بجے حملہ کر دیا۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر کے نزدیک 20 لاشیں دیکھی ہیں۔

حسن یمامہ نے بتایا کہ حملہ آوروں کی فائرنگ میں ان کے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ حملہ آوروں نے فصلیں اور گھروں کو بھی آگ لگا دی۔

جائے واردات سے تقریباً 90 کلومیٹر دور بولین میں مقامی طبی عملہ ان 38 دیگر افراد کا علاج کررہا ہے، جنہیں یا تو گولیاں لگی ہیں یا پھر وہ چاقو یا تیروں سے کیے گئے حملے سے زخمی ہوئے ہیں۔

Äthiopier Flüchten vor Kämpfen in Tigray in den Sudan
شمالی تیگرائی علاقے میں جاری تصادم کی وجہ سے لاکھوں افراد کو ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔تصویر: Mohamed Nureldin Abdallah/REUTERS

ہسپتال میں زیر علاج مریضوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے رشتہ داروں کو چاقو گھونپ کرمار ڈالا گیا اور جب کسی نے فرار ہونے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دی گئی۔

ایک نرس نے روئٹرز کو بتایا، ”اتنے زیادہ زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے ہمارے پاس تیاری نہیں تھی اور دوائیں ختم ہو گئی ہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ ایک ہسپتال میں منتقل کرنے کے دوران ایک پانچ سالہ بچے کی موت ہوگئی۔

ملک کے دیگر حصوں میں بھی نسلی تصادم

حکومتی فوج کو ملک کے دیگر حصوں میں بھی جاری اسی طرح کے نسلی تصادم سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ شمالی تیگرائی علاقے میں باغیوں اور حکومت کے درمیان جاری تصادم کی وجہ سے ساڑھے نو لاکھ سے زائد افراد کو ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔

ایک دیگر علاقے اورومیا میں بھی بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف ایتھوپیا کو صومالیہ سے ملحق اپنی مشرقی سرحد پر صومالی اسلام پسند جنگجووں سے بھی ایک عرصے سے خطرہ لاحق ہے۔

ج ا/  ص ز (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں