1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معروف پاکستانی صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ

افسر اعوان19 اپریل 2014

پاکستان کے ایک معروف صحافی، کالم نگار اور ٹیلی وژن اینکر حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق کراچی کی شاہراہ فیصل پر ان کی کار پر موٹر سائیکل پر سوار افراد نے فائرنگ کی۔

https://p.dw.com/p/1Bl8y
Hamid Mir
تصویر: AFP/Getty Images

اطلاعات کے مطابق حامد میر پر مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ایئرپورٹ سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے۔ حامد میر اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے۔ شاہراہ فیصل پر ناتھا خان بَرِج کے قریب ان کی کار پر فائرنگ کی گئی۔ جس کے بعد حامد میر کو ایک پرائیویٹ ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات خان نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن جیو نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حامدمیر کو جسم کے نچلے حصے میں تین گولیاں لگی ہیں۔ خان کے مطابق ڈاکٹروں نے انہیں بتایا ہے کہ حامد میر کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے

جیو نیوز کے مطابق حامد میر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر موجود تھے جب ان کی کار پر فائرنگ کی گئی۔ پرائیویٹ اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پانچ رکنی ٹیم حامد میر کا علاج کر رہی ہے اور انہیں آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا ہے۔

حامد میر پر اس سے قبل اسلام آباد میں بھی ان کی گاڑی میں بم فٹ کرکے حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کو ناکام بنادیا گیا تھا۔

پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ 29 مارچ کو لاہور میں ایک اور سینیئر صحافی اور اینکر پرسن رضا رومی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی۔ اس حملے میں رضا رومی تو محفوظ رہے تھے تاہم ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی طرف سے رواں برس فروری میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ابھی تک صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں سے ایک ہے۔ 2013ء کے دوران سات صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ آزادی صحافت کے حوالے سے تیار کی گئی 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 158 ویں نمبر پر ہے۔ شام سر فہرست ہے، جہاں گزشتہ برس کے دوران دس صحافی قتل کیے گئے۔ اس کے بعد فلپائن کا نمبر آتا ہے، جہاں آٹھ صحافیوں کو گزشتہ برس اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔