مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، شام پر نئی امریکی پابندیاں
30 اپریل 2011امریکی صدر نے جن افراد کے خلاف پابندیوں کے مسودے پر دستخط کیے فی الحال ان میں صدر بشارالاسد کا نام شامل نہیں، تاہم ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق اگر شام میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کا استعمال جاری رہا، تو ممکنہ طور پر بشارالاسد پر بھی جلد ہی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ پابندیوں کی زد میں بشارالاسد کے بھائی مہرالاسد اور کزن عاطف نجیب آئے ہیں۔ اس کے علاوہ شام کی خفیہ ایجنسی اور اس کے سربراہ کے خلاف بھی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح پابندیوں کی زد میں آنے والوں کے تمام اثاثے منجمد اور امریکی اداروں کے ساتھ تمام کاروباری روابط پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ امریکی اعلان میں شام میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں بشارالاسد حکومت کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایرانی انقلابی گارڈز پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے امریکی حکومت پر تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ بشارالاسد اور ان کے حامیوں کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے بےدریغ اور اندھا دھند استعمال کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ جمعہ کے روز شام میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے شہریوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کا زبردست استعمال کیا گیا۔ طبی ذرائع کے مطابق جنوبی شہر درعا میں سکیورٹی فورسز نے 19 مظاہرین کو ہلاک کیا جبکہ ملک بھر میں صرف جمعہ کے روز ہلاک ہونے والے افراد کی کُل تعداد 60 سے زائد تھی۔
سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے اندھادھند استعمال کی امریکہ کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی طرف سے بھی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کے سفارتکاروں نے بھی شام کے خلاف ممکنہ پابندیوں کا جائزہ لینے کے لیے ملاقات کی۔ بین الاقوامی خبررساں ادرے روئٹرز نے یورپی یونین کے دو اعلیٰ سفارتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے ساتھ مجوزہ فری ٹریڈ معاہدے پر جاری کام کی منسوخی پر بھی غور کیا گیا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ