مصری انتخابات: کم ووٹر ٹرن آؤٹ، ووٹنگ تیسرے روز بھی
28 مئی 2014شیڈول کے مطابق پیر 26 مئی سے شروع ہونے والے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ کے لیے دو دن مقرر تھے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس فیصلے کا مقصد مصر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو کم ٹرن آؤٹ کے باعث مستقبل میں کسی ممکنہ تنازعے سے بچانا ہے۔ تاہم ووٹنگ کے لیے ایک دن کے اضافے کے باوجود بھی بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے۔ 2012ء میں ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب تقریباً 52 فیصد رہا تھا۔
اے پی کے مطابق قاہرہ کے ڈسٹرکٹ الزمالك میں آج بدھ کے روز ووٹنگ کا تیسرا دن شروع ہونے کے ایک گھنٹہ بعد تک کوئی ایک بھی ووٹر وہاں نمودار نہیں ہوا تھا۔ ان انتخابات کے لیے سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں. جس کی وجہ مُرسی کے حامی اسلام پسندوں کی طرف سے حملوں کے خطرات کو قرار دیا گیا ہے۔
مصری صدارتی انتخابات میں صرف دو امیدوار مد مقابل ہیں اور سابق فوجی سربراہ عبدالفتح السیسی کی جیت یقینی تصور کی جا رہی ہے۔ تاہم ڈالے گئے ووٹوں کی کم شرح لازمی طور پر ان انتخابات کے یقینی فاتح عبدالفتح السیسی کے ان دعووں کے خلاف جائے گی کہ انہیں عوامی تائید و حمایت حاصل ہے۔ السیسی ان انتخابات میں بہت زیادہ ٹرن آوٹ کی توقع کر رہے تھے جو ان کے خیال میں گزشتہ برس اسلام پسند صدر محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے فیصلے کو درست ثابت کر سکتی ہے۔ محمد مُرسی مصر کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب صدر تھے اور تین جولائی 2013ء کو ان کی حکومت ملکی فوج کی طرف سے ختم کر دی گئی تھی۔ اس وقت السیسی فوجی سربراہ تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عوام کی طرف سے خود کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کا مطلب نہ صرف اسلام پسندوں بلکہ زیادہ تر عوامی حلقوں کی طرف سے بھی السیسی سے ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ کیونکہ بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ السیسی دراصل مصر کے لیے دوسرے حُسنی مبارک ثابت ہوں گے۔
قاہرہ کے روزنامہ ’الشروق‘ کے سر ورق پر آج بدھ کے روز لگنے والی سُرخی تھی ’بیلٹ باکس ووٹوں کے منتظر ہیں‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ عام طور پر السیسی کا حامی سمجھے جانے والے روزنامے کی آج کی سُرخی بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھی۔ سرخ رنگ میں لگی اس ہیڈ لائن کا مطلب تھا ’ریاست ووٹ کی تلاش میں ہے‘۔
ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق گزشتہ 10 ماہ کے دوران ملکی حکومت اور میڈیا السیسی کی حمایت میں رطب اللسان رہے ہیں اور انہیں ملک کا نجات دہندہ قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کی طرف سے السیسی کے اخوان المسلمون کے اسلام پسندوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن کی تعریفیں کی جاتی رہیں جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔