مصر کی طرح کا انقلاب: ’پاکستان میں نہیں‘
17 فروری 2011پاکستانی عوام کی بڑی تعداد ملکی رہنماؤں سے خاصی ناامید ہو چکی ہے ۔ لیکن سرکاری حکام، سرکردہ سماجی شخصیات اور متعدد ماہرین تعلیم کی رائے میں پاکستان کوئی نیا مصر یا تیونس ثابت نہیں ہوگا۔
یمن، الجزائر، اردن، شام اور بحرین میں عوام نے اس سیکولر انقلاب سے ملنے والے اشاروں کو محسوس کر لیا ہے، جس نے پورے مصر کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور جو 18 دن تک جاری رہا تھا۔ اس انقلاب کا پیغام یہ ہے کہ عوام اب طویل عرصے سے حکمران خود پسند رہنماؤں کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔
ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر یہی اشارے پاکستانی عوام نے بھی دیکھے۔ اس بارے میں بہت سی مختلف حالتوں میں وہاں یہ بحث بھی دیکھنے میں آئی کہ آیا پاکستان اگلا مصر بن جائے گا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں تو اس بارے میں ختم نہ ہونے والی بحث جاری ہے۔
کراچی میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر قیصر بنگالی ایسے کسی امکان کو ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مسترد کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہر بیس منٹ بعد مختلف سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی مسئلے کے بارے میں اپنے بیان جاری کرتی ہیں اور مسائل حل کر دینے کی بات کی جاتی ہے۔ ایسے بیانات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پھر ناامیدی کا اظہار تبدیلی کے اس عمل کو ثبوت ہے، جسے جمہوریت کی وجہ سے پیدا ہونے والی موسیقی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں موجودہ حکومت فروری 2008ء میں اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن اس حکو مت کے اقتدار میں آنے پر خوشیاں منانے والے بہت سے پاکستانی شہری اب یا تو ناامید ہو چکے ہیں یا ان میں پائی جانے والی بے چینی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں موجودہ صورت حال کسی ہلچل کے بعد ایک انقلاب کی وجہ بنتی نظر نہیں آتی۔ ان کے نزدیک ایسی کسی غیر معمولی تبدیلی کا امکان انتہائی کم ہے۔ ’’اس لیے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو باقاعدگی سے اتنی زیادہ تبدیلیوں کا تجربہ ہوتا ہے، جتنا کہ کسی بھی عرب ریاست میں وہاں کے عوام کو نہیں ہوتا۔‘‘
کئی سماجی شخصیات اور ماہرین تعلیم ایسے بھی ہیں جو کسی نئے انقلاب کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے۔ رسول بخش رئیس بھی ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں جو کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پائی جانے والی غیر یقینی کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے، تو کچھ بھی ممکن ہے‘۔
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے ایک استاد تیمور رحمان کا کہنا ہے کہ انقلاب ایسی بڑی تبدیلیوں کو کہتے ہیں، جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔تیمور رحمان کے مطابق، ’’ایک ماہ پہلے تک کون یہ کہہ سکتا تھا کہ پورا مصر وسیع تر عوامی احتجاجی مظاہروں کی گرفت میں آ جائے گا اور صدر حسنی مبارک کو زوال کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کسی نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح پوری کی پوری عرب دنیا عوامی احتجاجی تحریکوں کی لپیٹ میں آ جائے گی۔‘‘
تیمور رحمان کے بقول پاکستان میں یہ پیش رفت مشکل ہو گی کہ پہلے سیاسی تبدیلیوں کے لیے ایک تحریک کا زور دار بنایا جائے اور پھر اس کی شدت کو قائم بھی رکھا جائے۔ LUMS یونیورسٹی کے اس استاد کے بقول، ’’پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں کے لیے ایسی کسی تحریک کو وسیع تر اور تیز رفتار بنا سکنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ انتہا پسند مذہبی قوتیں ہیں، جو پورے ملک میں دہشت پھیلا رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں وہ سب کچھ نظر آنا قدرے مشکل ہے، جو کہ قاہرہ میں دیکھنے میں آیا۔‘‘
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر آنے والے انقلابات کا زمانہ گزر چکا ہے۔ وہ تمام انقلابات جن کا ہم نے گزشتہ عشروں اور سالوں کے دوران مشاہدہ کیا، وہ سب کی سب حکمران طبقے کی تبدیلی کی تحریکیں تھیں۔ رسول بخش رئیس نے خبر ایجنسی IPS کو بتایا کہ اس طرح کی انقلاب نما تبدیلیوں کا پاکستان میں کوئی امکان نہیں ہے۔ ’’اس لیے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کی بنیاد پر ایسی کسی بھی تبدیلی کا ایک باقاعدہ آئینی راستہ موجود ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک 31 سالہ وکیل یاسر ہمدانی کے بقول کسی منتخب جمہوری حکومت کو عوامی مظاہروں کے ذریعے دباؤ میں لانا بھی درست نہیں ہے۔ ان کے بقول ایسی کسی بھی سیاسی تبدیلی کو mobcracy بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک خراب جمہوریت تو شاید وقت کے ساتھ ساتھ ایک بہتر جمہوریت بن جائے لیکن mobcracy ایک اچھی ڈیموکریسی نہیں بن سکتی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک