1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی یوکرائن تنازعہ، روس فوجی مداخلت نہیں انتشار چاہتا ہے

عاطف توقیر11 اپریل 2014

یوکرائن کے علاقے کریمیا میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد اس کے روس میں انضمام کے بعد یوکرائن میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت کے حامل دیگر مشرقی علاقوں میں بھی مظاہرین روس کے حق میں مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BgSe
تصویر: Sergei Chirikov/AFP/Getty Images

گزشتہ ماہ روس کی جانب سے کریمیا کو باقاعدہ طور پر رشئین فیڈریشن میں شامل کر لیے جانے کے بعد اب ہزاروں کی تعداد میں روسی فوجی یوکرائن کی مشرقی سرحدوں پر جمع ہیں۔ امریکی اور یورپی رہنما ماسکو حکومت کو خبردار کے چکے ہیں کہ وہ یوکرائن میں فوجی مداخلت سے باز رہے اور خود ماسکو بھی کسی ایسے کارروائی کے امکانات کو مسترد کر چکا ہے۔ تاہم ماسکو حکومت کا موقف ہے کہ وہ یوکرائن میں موجود روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی صدر پوٹن مغربی دنیا کے ساتھ ’بلی چوہے‘ کے کھیل میں مصروف ہیں، جہاں وہ ایک طرف تناؤ کو ہوا دے رہے ہیں اور دوسری جانب وہ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ روس کا مطالبہ ہے کہ یوکرائن کے مشرقی حصوں میں اکثریت کے حامل روسی زبان بولنے والے شہریوں کا تحفظ یقینی اور ان کے علاقوں کو زیادہ خودمختاری دی جائے۔ یہ روس نواز مسلح مظاہرین اپنے علاقوں میں اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ ڈونسک سمیت مشرقی شہروں میں ان روس نواز مظاہرین نے آزادی کا اعلان بھی کر دیا ہے، تاہم روس کھلے عام ان مسلح مظاہرین کی حمایت نہیں کر رہا۔

Russland Armee Ukraine Krim Balaclava
روسی فوج بڑی تعداد میں مشرقی یورپی سرحدوں پر جمع ہےتصویر: Reuters

بدھ کے روز روسی صدر پوٹن نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ وہ یورپی یونین، امریکا اور یوکرائن کے ساتھ ہنگامی بات چیت میں مسئلے کے حل کا خواہاں ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پوٹن کے اس بیان سے واضح ہے کہ وہ مغربی دنیا کے سے براہ راست تصادم مول لینا نہیں چاہتے۔

جمعرات کو روسی صدر پوٹن کی جانب سے یورپی یونین میں شامل 18 ریاستوں کو ایک خط ارسال کیا گیا، جس میں دھمکی دی گئی کہ اگر کییف نے روسی گیس کے سلسلے میں اپنے ذمے واجب الادا 2.2 بلین ڈالر کا بل ادا نہ کیا، تو یوکرائن سے یورپی ممالک میں پہنچنے والی روسی گیس کی فراہمی میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے تجویز دی کی ماسکو اور برسلز مل بیٹھ کر یوکرائن کی بحران زدہ معیشت کی بحالی کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق ماسکو مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی اخلاقی اور لاجسٹک معاونت تو جاری رکھے گا، تاہم کریمیا کی طرز پر کسی عسکری کارروائی کے ذریعے ان مظاہرین کے یوکرائن سے آزادی کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ اے ایف پی کے مطابق روس نواز سابق صدر وکٹر یانوکووچ کی برطرفی اور وہاں یورپ نواز عبوری حکومت کے قیام کے بعد یوکرائن میں روسی اثرورسوخ کو چیلنجز کا سامنا ہے، جب کہ ماسکو حکومت کسی دور میں سابق سویت یونین کا حصہ رہنے والے یوکرائن میں موجود اس انتشار میں اپنے اثرورسوخ کی بقا دیکھ رہی ہے۔