1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی یورپ، وسطی ایشیا: معذور افراد کی خود انحصاری، ایک خواب

1 اپریل 2019

مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں معذوری کے شکار کروڑوں شہریوں کو اپنی زندگیوں میں اکثر صرف خود پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی اوکسانا ایودوکیمووا نے ایسے ہی تین افراد سے ملاقات کی، جنہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/3G1Xc
جارجیا کے گیورگیئر زنےلادزےتصویر: DW/O. Evdokimova

مشرقی یورپی ممالک اور وسطی ایشیا میں جسمانی معذوری کے شکار افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چند سرکردہ کارکنوں کو جرمنی کے د ورے کے دوران دارالحکومت برلن میں ان کی ملاقاتوں اور مشاہدات کے دوران کئی طرح کے تجربات ہوئے۔

جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی پارلیمان کی عمارت کے طویل کوریڈور اتنے ہموار تھے کہ وہیل چیئر پر بیٹھا کوئی بھی انسان اتنی ہی تیزی سے حرکت کر سکتا تھا، جتنا کہ کوئی عام آدمی۔ اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے ساٹھ سالہ گیورگیئر زنےلادزے بہت خوش تھے۔ وہ ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء میں سے ایک تھے، جس میں معذور افراد کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیدار حصہ لے رہے تھے۔ ان شرکاء کا تعلق یوکرائن، بیلاروس، کرغزستان، تاجکستان، جارجیا، روس اور قزاقستان سے تھا۔

گیورگیئر زنےلادزے جو وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں، وہ انہوں نے خود ہی بنائی ہے۔ جس طرح کی وہیل چیئر وہ استعمال کرتے ہیں، وہ ان کے ملک جارجیا کے معذور شہریوں میں بہت مقبول ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم یہ وہیل چیئرز تبلیسی میں اپنی ورکشاپ میں خود تیار کرتے ہیں۔ ہماری ورکشاپ کے نصف کارکن خود بھی جسمانی طور پر معذور ہیں۔‘‘ گیورگیئر زنےلادزے کہتے ہیں کہ کوئی بھی وہیئل چیئر کسی بھی صارف کی جسمانی ضروریات کے عین مطابق ہونا چاہیے، ورنہ ’’اس کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔‘‘

Im Verein "Inklusion rockt. Musik für alle"
وہیل چیئر استعمال کرنے والی ایک گلوکارہ ایک روک میوزک کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: DW/O. Evdokimova

جارجیا: ’رکاوٹیں تو ذہن میں ہوتی ہیں‘

جارجیا کے شہری گیورگیئر زنےلادزے کو وہیل چیئر استعمال کرتے ہوئے 43 برس ہو چکے ہیں۔ وہ غوطہ خوری کے دوران ایک حادثے کا شکار ہو جانے کے بعد چل پھر نہیں سکتے تھے۔ کئی برسوں تک وہ شدید ڈپریشن کا شکار رہے اور پھر انہیں احساس ہوا کہ زندگی تو ایک ہی بار ملتی ہے اور زندہ رہنے کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ تب انہوں نے اپنے جسمانی طور پر معذور ہونے کو ذہنی طور پر بھی تسلیم کر لیا تھا اور ساتھ ہی اپنی آزادی، خود مختاری اور خود انحصاری کے لیے جدوجہد بھی شروع کر دی تھی۔

گیورگیئر زنےلادزے کو اپنی زندگی میں کس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا پڑا، وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’تب جارجیا ابھی سابق سوویت یونین ہی کا حصہ تھا۔ سوویت معاشرے میں زیادہ زور صحت مند، مضبوط اور کارکردگی کے اہل انسانوں پر دیا جاتا تھا۔ ہم جیسے معذوری کے شکار انسانوں کے لیے سوویت معاشرے میں تقریباﹰ کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔‘‘

جارجیا کی آزادی کے بعد گیورگیئر زنےلادزے نے اپنے ملک میں معذوروں سے متعلق خصوصی قانون سازی کے لیے بھی بہت زیادہ جدوجہد کی۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے کہ معذور شہریوں کی آمد و رفت کے لیے ایسے بنیادی ڈھانچے تعمیر کیے جائیں، جو کسی بھی طرح کی رکاوٹوں سے مبرا ہوں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکتا کہ بہت سے انسان ایسا کیوں کرتے یا سمجھتے ہیں کہ جیسے معذوروں کا سماجی طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو رکاوٹیں ہمیں معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ اپنی اصل اور ابتدائی شکل میں دراصل انسانوں کے ذہنوں میں ہوتی ہیں۔‘‘

Marina Borissenkowa, Abgeordnete im Regionalparlament, Pskow-Gebiet
روسی خاتون سیاستدان مارینا بوریسینکوواتصویر: DW/O. Evdokimova

روس: وہیل چیئر استعمال کرنے والے پہلی علاقائی خاتون سیاستدان

روس میں معذور افراد کی تعداد تقریباﹰ 12 ملین ہے لیکن وہ آپ کو سڑکوں پر نظر نہیں آتے۔ مارینا بوریسینکووا کی عمر 43 برس ہے اور انہیں اپنے نچلے دھڑ کی معذوری کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’روس میں بہت سے فلیٹ معذور افراد کی رہائش کے لیے موزوں ہی نہیں ہیں۔ کسی وہیل چیئر پر بیٹھا کوئی مرد یا عورت ان تک رسائی حاصل کر ہی نہیں سکتا۔‘‘

مارینا بوریسینکووا روس کے پسکوو نامی ایک ایسے علاقے میں معذور افراد کی ایک تنظیم کی سربراہ ہیں، جو ایسٹونیا کے ساتھ روسی سرحد اور یوں روس کی یورپی یونین کے ساتھ سرحد سے صرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مارینا بوریسینکووا کہتی ہیں کہ روس میں ذہنی طور پر معذور افراد کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو تو بند رہائش گاہوں میں کڑی نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔

’معذور ہم نہیں، معاشرہ ہے‘

مارینا بوریسینکووا کے بقول اس صورت حال کو بدلنے کے لیے سیاسی سطح پر فیصلہ سازی اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے تین سال قبل وہ سیاست میں آئیں اور اپنے علاقے کی مقامی پارلیمان کی ایک آزاد رکن منتخب کر لی گئیں۔ وہ اپنے علاقے کی پارلیمان کی وہیل چیئر استعمال کرنے والی پہلی خاتون سیاستدان ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں پارلیمان کی کارروائی میں شرکت کے لیے اٹھا کر ایوان کے اندر لایا جاتا تھا، اس لیے کہ اس پارلیمان تک وہیل چیئر پر بیٹھ کر رسائی تو ممکن ہی نہیں تھی۔

اب گزشتہ تین برسوں سے مارینا بوریسینکووا کی کوششوں سے ان کے علاقے میں معذوروں کی صورت حال کچھ بہتر ہو چکی ہے لیکن بہت کچھ کیا جانا اب بھی باقی ہے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں ایک ایسے تھیٹر کی بھی بہت حوصلہ افزائی کی، جس کے گلوکاروں اور فنکاروں میں سے زیادہ تر جسمانی طور پر معذور ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے خاتون گلوکاروں کا ایک بینڈ بھی بنایا، جس کی موسیقی کو اب کافی زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان فنکاروں کی جسمانی معذوری ان کے کام اور کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔‘‘

مارینا بوریسینکووا پرامید ہیں کہ روسی معاشرے میں معذوروں کو جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ کسی نہ کسی دن ختم ہو جائیں گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہو سکتا ہے کہ کسی دن روس میں کسی ایسے مرد یا خاتون سیاستدان کو ملکی صدر بھی متخب کر لیا جائے، جو وہیل چیئر استعمال کرنے پر مجبور ہو۔‘‘

Abdullo Abdukhalilov
ازبکستان کے عبداللہ عبدالخلیلوفتصویر: DW/O. Evdokimova

ازبکستان: ’نوے فیصد مقامات رسائی سے باہر‘

عبداللہ عبدالخلیلوف ازبکستان میں معذور افراد کی ایک ملکی تنظیم کے نائب سربراہ ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ وہ بھی برلن منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے۔ برلن شہر میں سفر کے دوران وہ جاننا چاہتے تھے کہ کسی زیر زمین ریلوے پر سفر کرتے ہوئے وہ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ کسی بھی اسٹیشن پر پلیٹ فارم کہاں پر ختم ہوتا ہے؟ وہ یہ اس لیے جاننا چاہتے تھے کہ اپنے ملک میں وہ دو مرتبہ اسی کوشش میں پلیٹ فارم سے نیچے گر بھی گئے تھے اور اس دوران ان کے کولہے پر چوٹیں آئی تھیں۔

عبداللہ عبدالخلیلوف کو برلن میں ان کے سوال کا جواب یہ ملا کہ کسی بھی زیر زمین ٹرام اسٹیشن پر اس جگہ پر موٹی موٹی لائنیں لگی ہوتی ہیں، جن کی مدد سے کوئی بھی نابینا مسافر بھی یہ جان لیتا ہے کہ ان سے آگے پلیٹ فارم ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر گہرے رنج کا اظہار کیا کہ ازبکستان میں نوے فیصد مقامات ایسے ہیں کہ جہاں کسی بھی طرح کی جسمانی معذوری کے شکار افراد کے لیے جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ ’’ازبکستان میں ہم جیسے معذور افراد کی حیثیت معاشرے کے نظر نہ آنے والے ارکان کی سی ہے۔‘‘

اوکسانا ایودوکیمووا (م م / ک م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں