مشرقی افریقہ میں القاعدہ کا مشتبہ سربراہ ہلاک
12 جون 2011کینیا کی پولیس کی طرف سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فضل کو موغادیشو میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ کینیا کے ایک اخبار میں پولیس کمشنر Mathew Iteere کے شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’فضل موغادیشو میں ہلاک ہوگیا اور اب ہم اس کی لاش کے ڈی این ٹیسٹ کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘
فضل کو دہشت گرد تنظیم الشباب کے ایک اور دہشت گرد کے ہمراہ سڑک پر لگائے گئے ناکے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔اسلامی انتہا پسند تنظیم الشباب صومالیہ میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں میں مصروف ایک گروہ ہے۔ القاعدہ سے گہرے روابط رکھنے والی اس تنظیم پر سن 2001ء میں امریکہ میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی میں القاعدہ کی معاونت کا بھی الزام ہے۔
فضل پر سن 1998ء میں نیروبی اور دارالسلام میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کا الزام بھی عائد ہے۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں مجموعی طور پر 200 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ فضل کو سن 2002ء میں کینیا میں ایک ہوٹل پر بھی خودکش حملے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد ہے۔ یہ ہوٹل ایک اسرائیلی شہری کی ملکیت تھا۔
اپنے سرکاری دورے پر تنزانیہ پہنچنے والی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے فضل عبد اللہ محمد کی موت کو القاعدہ کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا۔ ’’فضل عبد اللہ محمد کی موت القاعدہ، اس کے اتحادیوں اور مشرقی افریقہ میں اس کی کارروائیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔‘‘ ہلیری کلنٹن پہلے سے طے شدہ دورے پر تنزانیہ پہنچی ہیں۔ ان کے بقول، ’’اس دہشت گرد کی وجہ سے تنزانیہ، کینیا اور صومالیہ کے باشندوں کے علاوہ خود ہمارے سفارتخانوں کے متعدد ملازمین کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔‘‘
واضح رہے کہ فضل عبد اللہ محمد کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے بعد اُس کے ممکنہ جانشین کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ گزشتہ ماہ امریکی نیول سِیلز نے پاکستانی شہری ایبٹ آباد میں ایک کمانڈو ایکشن کے بعد القاعدہ تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف