مشرق وسطیٰ مذاکرات: بستیوں کی تعمیر پر کشمکش جاری
15 ستمبر 2010ایک طویل وقفے کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے اِن براہِ راست مذاکرات سے جہاں مثبت توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں، وہیں اِن پر شکوک و شبہات کے سائے بھی منڈلا رہے ہیں۔ 14 ستمبر کو مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں امریکہ کے خصوصی مندوب برائے مشرقِ وُسطیٰ جارج مچل بہرحال ان مذاکرات کے حوالے سے خاصے پُر امید تھے۔ اُنہوں نے حقائق سے قریب رہتے ہوئے لیکن ساتھ ہی پُر جوش انداز میں یہ اعلان کیا کہ فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اچھے اور تعمیری انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ دونوں رہنماؤں کے درمیان مرکزی اہمیت کے حامل معاملات مثلاً مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدوں، یروشلم کے تشخص اور فلسطینی پناہ گزینوں پر بھی بات ہوئی ہے۔
مچل نے واضح انداز میں اسرائیلی وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ مغربی اُردن میں بستیوں کی تعمیر پر پابندی کی مدت میں توسیع کر دیں۔ اُنہوں نے کہا: ’’بستیوں کے حوالے سے ہمارا موقف سب جانتے ہیں اور اس میں ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جیسا کہ صدر اوباما نے حال ہی میں کہا، ہمارے خیال میں مناسب یہی ہے کہ اب جبکہ مذاکرات تعمیری سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، بستیوں کی تعمیر پر عارضی پابندی میں توسیع کر دی جائے۔‘‘
اِن مذاکرات میں کیا چیز ہے، جسے تعمیری قرار دیا جا رہا ہے اور شرم الشیخ میں کیوں عباس اور نیتن یاہو طے شُدہ پروگرام کے برعکس دو مرتبہ ایک دوسرے سے ملے، یہ سب کچھ ابھی تک راز کے پردے میں ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی ملاقاتوں کے بعد کسی پریس کانفرنس سے بھی خطاب نہیں کیا۔ جارج مچل نے عالمی پریس کے متجسس نمائندوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا: ’’فریقین میں اِس بات پر اتفاق تھا کہ مذاکرات کی تفصیلات راز میں رکھی جائیں گی اور اُنہیں انتہائی حساسیت کے ساتھ برتا جائے گا، اِس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوں۔‘‘
یہ بات خاص طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں کسی مفاہمت کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔ شرم الشیخ میں امریکیوں کو اتنی کامیابی ضرور حاصل ہوئی کہ اُنہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس اور اُن کے وفد کو مذاکرات چھوڑ کر جانے نہیں دیا۔ فلسطینی نمائندوں کا یہی کہنا تھا کہ اگر نیتن یاہو نے بستیوں کی تعمیر پر عارضی پابندی کی مدت میں توسیع نہ کی تو وہ مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔
اسرائیل میں اِن مذاکرات کے حوالے سے بدستور شک و شبہ پایا جاتا ہے، اُن حلقوں میں بھی، جو امن کے حامی ہیں۔ ریزرو فوج کے کرنل شاؤل اریلی کہتے ہیں: ’’یہ مذاکرات جاری بھی رہیں تو مجھے یہ امکان بہت دور ہی نظر آتا ہے کہ دونوں رہنما کسی ٹھوس اور مؤثر فیصلے پر پہنچ سکیں گے۔ فی الوقت میرے خیال میں کوئی حقیقی مذاکرات عمل میں نہیں آ رہے ہیں۔‘‘
ایک ممتاز اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق دو تہائی اسرائیلی شہریوں نے اِن مذاکرات کے بارے میں شک و شبے کا اظہار کیا ہے۔ 71 فیصد کے خیال میں اِس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی امن معاہدہ عمل میں آ سکے گا۔ صرف ایک چوتھائی آبادی کو ہی اِن مذاکرات کی کامیابی کا یقین ہے۔
بدھ کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے یروشلم میں اسرائیلی صدر شمون پیریز کے ساتھ ملاقات کی ہے جبکہ سہ پہر کو اسرائیلی اور فلسطینی وفود آپس میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اِس ملاقات کے بعد شام کو جارج مچل مذاکرات کی تفصیلات بتائیں گے۔
رپورٹ: سیباستیان اینگل بریشٹ (تل ابیب) / امجد علی
ادارت: مقبول ملک