1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطی میں کشیدگی: مودی اور ٹرمپ کی بات چیت

جاوید اختر، نئی دہلی
7 جنوری 2020

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اور امریکا کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Vo5b
Bild-Kombi Modi Trump

بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے دی گئی اس اطلاع میں تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطی کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے دونوں رہنماؤں کے درمیان کوئی بات ہوئی یا کیا بات ہوئی۔

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان سکھیندو شیکھر رائے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے تاہم کہا، ”مودی اور ٹرمپ کے درمیان ایران کے معاملے پر بات چیت ہونا فطری ہے۔ خاص طور پر ایسی حالت میں جب کہ امریکی حملے میں ایران کے چوٹی کے فوجی جنرل قاسم سلیمانی کی موت ہوگئی ہے۔ امریکا کی اس کارروائی کے بعد عراق بھی ایران کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ بھارت کے لیے یہ گومگو کی صورت حال ہے۔ کیوں کہ ایران اور امریکا دونوں ہی کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچھے ہیں اور دونوں کے ساتھ بھارت کو اپنے تعلقات قائم رکھنا ہوں گے۔ ایران، بھارت کا بہت ہی قدیم دوست ہے اور تیل کے لیے بھارت بڑی حد تک ایران پر انحصار کرتا رہا ہے۔گو امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے فی الحال ایران سے تیل کی درآمد بند ہے لیکن ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی صورت میں بھارت کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔" 

شیکھر رائے کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ ایران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا بھارت کی مجبوری ہے لیکن اس کے لیے امریکا کو بھی رضامند کرنا ہوگا تاکہ وہ بھارت کے اس طرح کے اقدام سے ناراض نہ ہو۔

ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکا نے پاکستان کی فوجی قیادت کو اعتماد میں لیا تھا لیکن بھارت کو کوئی خاص اہمیت نہیں د ی تھی۔ بعد میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے امریکا اورایران کے وزرائے خارجہ سے فون پر بات کی تھی۔ با ت چیت کے بعد محتاط بیان میں بھارتی وزیر خارجہ نے فریقین سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی تھی۔

Iran Kommandeur Qassem Soleimani al-Quds Revolutionsgarden
ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکا نے پاکستان کی فوجی قیادت کو اعتماد میں لیا تھا لیکن بھارت کو کوئی خاص اہمیت نہیں د ی تھی۔تصویر: picture-alliance/abaca/Salampix

سیاسی تجزیہ نگار امیتابھ رائے کے مطابق بھارت کے لیے پریشانی یہ ہے کہ وہ نہ تو ایران کو نظر انداز کرسکتا ہے اور نہ ہی امریکا کو ناراض: ”ایران میں بھارت کی دلچسپی چابہار بندرگا ہ میں سرمایہ کاری کی وجہ سے ہے۔ ایران کی مدد سے وہ پاکستانی سرزمین سے گزرے بغیر ہی افغانستان سے لے کر مغربی ایشیا تک اپنی تجارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ رشتہ آگے بھی جاری رکھ سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکا، بھارت کا ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور بھارت اب دفاعی ساز وسامان کے لیے بڑی حد تک امریکا پر انحصار کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکا کے درمیان متعدد شعبوں میں باہمی تعلقات کافی مستحکم ہوئے ہیں۔ اس لیے بھارت کو انتہائی سوچ سمجھ کر اور متوازن قدم اٹھانا پڑے گا۔"

وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان بات چیت کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، ”وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ، ان کے خاندان اور امریکی عوام کے لیے نئے سال میں اچھی صحت،خوشحالی اور کامیابی کی تمنا کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت ۔ امریکا تعلقات باہمی احترام اور افہام پر مبنی ہیں۔ یہ گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ مستحکم ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ برس اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی اور دونوں ملکوں کے مابین باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں شراکت میں اضافہ کرنے پر بھی زور دیا۔"

بھارتی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”صدر ٹرمپ نے بھی بھارت کے عوام کو نئے سال میں ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک خواہشات دیں۔ صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں اور مضبوط بنانے کے خاطر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کشیدہ صورت حال میں وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان بات چیت کافی اہمیت کی حامل ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔