1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمانوں کو خصوصی مراعات نہیں دی جا سکتیں، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

کرسٹوف ہاسل باخ / عدنان اسحاق 8 جنوری 2015

پیرس میں ’شارلی ایبدو‘ پر حملے کے بعد اسلام اور تارکین وطن سے متعلق بحث شدید ہو سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کرسٹوف ہاسل باخ کے مطابق اس صورتحال میں نہ تو آزادی اور نہ ہی برداشت پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1EGc9
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

کرسٹوف ہاسل باخ کہتے ہیں کہ ’شارلی ایبدو‘ پر ہونے والا یہ حملہ اچانک نہیں تھا۔ اس اخبار نے 2006ء میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے چھاپے تھے، جو اس سے قبل ڈنمارک کا اخبار ’جیلاڈن پوسٹن‘ بھی شائع کر چکا تھا۔ ان کارٹونز یا خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ 2011ء میں ’شارلی ایبدو‘ کے دفاتر کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی اس اخبار نے پیغمبر اسلام اور اسلام پر طنز و مزاح کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ ’شارلی ایبدو نے‘ ابھی حال ہی میں ’شریعت‘ کے نام سے ایک خصوصی ضمیمہ بھی نکالا تھا، جس پر تحریر تھا ’’چیف ایڈیٹر محمد‘‘۔

Frankreich Anschlag auf Charlie Hebdo - Sicherheitsvorkehrungen in Paris
تصویر: Reuters/G. Fuentes

ہاسل باخ کے بقول یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ اس ضمیمے کے صفحہٴ اول پر فرانسیسی مصنف مشیل ویلبیک کی بھی تصویر تھی۔ ویلبیک کا ابھی حال ہی میں ایک انتہائی متنازعہ ناول منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے ایک ایسے فرانس کی منظر کشی کی تھی، جس کا صدر ایک مسلمان ہے۔

کرسٹوف ہاسل باخ اس سوال کے جواب میں کہ آیا کوئی اخبار کسی مذہب یا اس کی مقدس شخصیات کا مذاق اڑانے کا حق رکھتا ہے، کہتے ہیں کہ یقیناً وہ ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شارلی ایبدو‘ نے پاپائے روم اور مسیحی تنظمیوں کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کو یقیناً یہ بات پسند نہیں آئی ہو گی تاہم انہوں نے اسے برداشت کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی حکومت کو بھی اس طرح کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک آزاد جمہوری معاشرے میں برداشت بہت ضروری ہے اور ایک حکومت اپنے تمام شہریوں سے اسی طرح کے رویے کی امید رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس حوالے سے خصوصی مراعات نہیں دی جا سکتیں۔

فرانس میں مسلمانوں ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ ان میں زیادہ تر بے روزگار ہیں اور حکومتی اعانت پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سماجی طور پر یہ لوگ کمزور بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے علاقوں میں تو پولیس بھی داخل ہونے سے بھی گھبراتی ہے۔

دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ نامی جماعت ہے، جو غیر ملکیوں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے یورپی انتخابات میں یہ جماعت ایک طاقت بن کر سامنے آئی تھی۔ ہاسل باخ مزید لکھتے ہیں کہ پیرس میں ہونے والے واقعے کے بعد اس جماعت کے حامیوں کی سوچ مزید پختہ ہو گئی ہو گی۔ اس صورتحال میں مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہو گا اور مسلم برادری کا غصہ بھی بڑھے گا، یعنی یہ ایک شیطانی چکر ہے۔

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کرسٹوف ہاسل باخ مزید لکھتے ہیں کہ ’شارلی ایبدو‘ پر ہونے والے حملے کے نتائج صرف فرانس تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ گزشتہ دنوں کے دوران یورپی یونین کے تقریباً ہر رکن ملک میں ہی غیر ملکیوں کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ جماعتیں کہہ سکتی ہیں کہ ’اب دیکھا سب نے، یہ مسلمان اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں ہیں اور یہ لوگ ضم ہونے کے قابل بھی نہیں ہیں‘۔ گویا ایک چھوٹی سی اقلیت کے اندر بھی ایک اقلیت کی حیثیت رکھنے والے کسی گروپ کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کا ذمہ دار فوری طور پر ایک پورے مذہب اور اس کے ماننے والوں کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

Frankreich Anschlag auf Charlie Hebdo - Screenshot charliehebdo.fr
تصویر: charliehebdo.fr

کرسٹوف ہاسل باخ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس واقعے سے پُر امن بقائے باہمی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ ایسے میں دانشمندانہ طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’یقیناً جو کچھ ہوا ہے، وہ بہت ہولناک ہے اور ہماری آزادی پر ایسا حملہ ہے، جسے کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم کسی کو بھی اپنی یہ آزادی چھیننے نہیں دیں گے۔ لیکن اسی طرح ہمیں اپنی رواداری کو بھی اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ تمام مسلمانوں کو شک و شبے کی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ ہی پُر امن بقائے باہمی کے ماڈل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘