1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مسلم اقليت کی تعليم کے ذريعے اصلاح کی جائے‘

21 ستمبر 2018

چين ميں داخلی سلامتی کی نگران ايجنسی کے سربراہ نے سنکيانگ ميں زير حراست ايغور نسل کے لاکھوں مسلمانوں کی ’تعليم کے ذريعے اصلاح‘ پر زور ديا ہے۔ بيجنگ حکومت پر اقليت کے ساتھ ايسا سلوک اپنانے پر عالمی سطح پر تنقيد جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/35HO1
China Unruhen in Xinjiang
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/D. Azubel

چين ميں منسٹر برائے پبلک سکيورٹی گُوو شينگکن نے سنکيانگ کے تين روزہ دورے کے اختتام پر کہا کہ قيديوں کے ليے سياسی تعليم، نفسياتی مسائل کے حل کے ليے مدد، ووکيشنل ٹريننگ اور ديگر طريقہ ہائے کار سے تعليم کے ذريعے اصلاح کا عمل جاری رکھا جانا چاہيے تاکہ يہ قيدی ايک ’نئی زندگی‘ شروع کر سکيں۔ ان کے بقول سنکيانگ ميں سماجی سطح پر استحکام کافی مشکل سے پيدا ہوا ہے اور اب اس کا تحفظ لازمی ہے، جس کے ليے کوششيں مسلسل جاری رکھی جانی چاہيے۔

يہ امر اہم ہے کہ چين کے سنکيانگ کے خطے ميں ايغور اور ديگر نسلوں کی اکثريتی طور پر مسلم آبادی بڑے بڑے حراستی مراکز ميں سخت نگرانی ميں قيد ہے۔ اس معاملے پر بيجنگ حکومت کو نہ صرف ملک کے اندر موجود دانشوروں اور انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنان کی تنقيد کا سامنا ہے بلکہ عالمی براداری بھی اس بارے ميں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہے۔ دوسری جانب چينی حکومت کا موقف ہے کہ اسے مسلم جنگجوؤں و عليحدگی پسندوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ چين نے قيديوں کے ساتھ ’برے سلوک‘ کے حوالے سے سامنے آنے والے تمام الزامات رد کر ديے ہيں۔ حکام کا کہنا ہے کہ چند افراد کو تربيت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ ان کے منفی نظريات نہ پھيليں۔

دريں اثناء کئی  ديگر ملکوں کے بعد اس ہفتے جرمنی اور فرانس نے بھی سنکيانگ ميں مسلم اقليت کے ساتھ اپنائے گئے سلوک کو روکنے کے ليے اقوام متحدہ پر زور ديا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں چين پر دباو ڈالے۔ چينی حکومت نے ’ری ايجوکيشن‘ کے ليے جو کيمپ لگا رکھے ہيں، بيشتر ممالک ان کا خاتمہ چاہتے ہيں۔ کئی اندازوں کے مطابق ان کيمپوں ميں تقريباً ايک ملين سے زائد ايغور مسلمان قيد ہيں۔

ع س / اا، نيوز ايجنسياں