1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستونگ میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان شدید لڑائی

16 مئی 2019

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے شورش زدہ ضلع مستونگ میں سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران دہشت گرد تنظیم داعش کے نو شدت پسند ہلاک اورچار سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3IcCi
Pakistan Quetta Sicherheitskräfte Turbat Balochistan
تصویر: DW/A.G. Kakar

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان اعتزاز احمد گوریہ کے بقول ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کے ٹھکانے سے بھاری اسلحہ اور گولا بارود بھی برامد کیا گیا ہے۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں داعش کے شدت پسند اپنے نیٹ ورک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کی مستونگ کے علاقے قابو کوہ مہران میں داعش کے شدت پسند روپوش ہیں اور وہاں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کو آپریٹ کیا جا رہا ہے۔ ان انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں سی ٹی ڈی نے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہم راہ کارروائی کی۔ یہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جہاں شدت پسندوں نے خفیہ ٹھکانے قائم کر رکھے تھے۔ کارروائی کے دوران نو شدت پسند ہلاک جب کہ ہمارے چار سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں ۔‘‘

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایاکہ ہلاک ہونے والے داعش کے شدت پسندوں میں ان کے تین اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔

بلوچ بمقابلہ بیجنگ: پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر حملے

گوادر حملے میں ملوث تمام چار جنگجو ہلاک

انہوں نے مذید کہا، ’’یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ جو شدت پسند اس کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے بعض کی شناخت بھی ہو گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے داعش کے یہ شدت پسند خطے میں حالیہ دہشت گردی کے کئی اہم واقعات میں ملوث تھے۔‘‘

ضلع مستونگ میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار مزمل رشید کے بقول ہلاک ہونے والے شدت پسندوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں پر دستی بم بھی پھینکے۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہلاک ہونے والے تمام شدت پسندوں کی لاشیں تحویل میں لے کر مقامی اسپتال منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس کارروائی میں جوشدت پسند ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایسے شدت پسند بھی شامل تھے جو کہ گزشتہ کئی عرصے سے سیکیورٹی اداروں کو مطلوب تھے۔‘‘

مزمل رشید نے بتایا کہ آج بروز جمعرات داعش کے شدت پسندوں کے خلاف جو کارروائی عمل میں لائی گئی ہے، اسی نوعیت کی کارروائیاں یہاں گزشتہ سال بھی کی گئی تھیں۔

 مزمل کا مزیدکہنا تھا، ’’اس وقت داعش کے شدت پسند ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہاں اپنے نیٹ ورک کو فعال بنائیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقے ماضی میں داعش کی حمایت یافتہ،  لشکر جھنگوی، تحریک طالبان اور جیشن الاسلام نامی تنظیموں کا گڑھ رہے ہیں۔ اس وقت بھی یہاں جو دہشت گردی ہو رہی ہے ان میں ان تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ امن کی بحالی کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کے دور رس نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘‘

دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق کے بقول پاکستان میں داعش کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں مذید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’دیکھیں اس وقت پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ وہ شدت پسند تنظیمیں جن کی آپریشنل صلاحیت فوجی کارروائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر ختم ہو گئی تھی اب پھر فعال ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں جو غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے وہ اسی تسلسل کا حصہ ہے۔‘‘

 عمر فاروق کا کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش کے شدت پسندوں کو طالبان کی جانب سے ایک بہت بڑا سیٹ بیک ملا ہے اسی لیے یہ تنظیم اب پاکستان میں اپنے جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں داعش کے خلاف کارروائی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وہ تنظیمیں جو داعش کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے معاونت فراہم کر رہی ہیں، انہیں بھی اسی زاویے سے کاؤنٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں داعش کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ واضح کرتا ہے کہ یہاں اس شدت پسند تنظیم کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں داعش سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم داعش نے گزشتہ روز کوئٹہ مشرقی بائی پاس پر ہونے والے ایک تازہ حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ داعش نے دعویٰ کیا تھا کہ مشرقی بائی پاس کوئٹہ میں اس سے وابستہ حملہ آوروں نے افغان طالبان پر حملہ کیا ہے۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک جبکہ 3 افراد زخمی ہوئے تھے۔