1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل کی جنگوں کے ’قاتل روبوٹ‘، دنیا کے لیے نیا خطرہ

17 جنوری 2020

ترقی یافتہ ممالک تیزی سے ’قاتل روبوٹ‘ تیار کر رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے ایسی مشینیں تیار کی جا رہی ہیں، جو خودکار طریقے سے اپنے ہدف چنیں گی اور انہیں نشانہ بنائیں گی۔ کیا اس حوالے سے بین الاقوامی قانون سازی ضروری ہے؟

https://p.dw.com/p/3WNLI
Cheetah Roboter-Gepard des US-Militärs
تصویر: Boston Dynamics

ڈرونز سے لے کر ٹینکوں اور آبدوزوں سے لے کر میزائلوں تک، نیم خود مختار ہتھیاروں کا استعمال موجودہ دور کی جنگوں میں معمول کی بات بن چکا ہے۔ لیکن ابھی تک ان ہتھیاروں کا استعمال انسانی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ مستقبل میں یہ سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔

امریکا، روس اور اسرائیل جیسے ممالک انتہائی مہلک اور مکمل طور پر خود مختار ہتھیاروں کے نظام (ایل اے ڈبلیو ایس) تیار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ ہتھیار خود ہی اپنے ہدف کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے نشانہ بنایا کریں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کنٹرول کرنے اور ان کے استعمال کے حوالے سے کوئی بھی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ہے۔

اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے صدر پیٹر ماؤر کہتے ہیں، ''ان مشینوں پر کسی نہ کسی طرح کا انسانی کنٹرول ہونا انتہائی ضروری ہے۔ لڑائی کے دوران صرف انسان ہی طاقت کے استعمال کا فرق ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے تناسب اور احتیاطی تدابیر سے متعلق فیصلے کر سکتے ہیں۔‘‘

Roboter Method 2
تصویر: picture-alliance/Seung-il Ryu/NurPhoto

انسانی حقوق کے تحفظ اور امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والی یہ تنظیم سن انیس سو انچاس میں طے پانے والے جنیوا معاہدے کی پاسداری کے حوالے سے بھی نگرانی کا کام کرتی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد جنگوں اور تنازعات کے دوران شہری حقوق کا تحفظ اور عام انسانوں کی مدد کرنا ہے۔ اسی وجہ سے مستقبل کی جدید جنگوں میں بھی ایسے ہی قوانین اپنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

محققین، دفاعی تجزیہ کاروں اور روبوٹس کے حوالے سے تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق مکمل طور پر خود مختار ہتھیاروں کا نظام اب کوئی ویڈیو گیم یا پھر سائنس فکشن فلموں کی بات نہیں رہا۔ آئندہ چند برسوں کے دوران ملٹری روبوٹس میدان جنگ میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مستقبل میں سینکڑوں ڈرونز کو ایک ساتھ کسی شہر میں بھیجا جا سکتا ہے، جو اپنے اہداف کو لمحوں میں نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں 'قاتل روبوٹس‘ کا استعمال بنیادی انسانی حقوق پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کئی ماہرین کی رائے میں ایک انسان کی زندگی یا موت کے تعین کی طاقت کسی مشین کے حوالے کر دینا انسانی وقار کے بنیادی اصول کے منافی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے بھی بڑا خطرہ ایسے مکمل خودکار ہتھیاروں کی ہیکنگ کا بھی ہے، جس سے لاتعداد سویلین ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

سن دو ہزار انیس میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے چھبیس ممالک میں ایک سروے کرایا تھا، جس میں اکسٹھ فیصد افراد نے ایسے مکمل طور پر خودکار ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف رائے دی تھی۔ ان ممالک میں امریکا اور اسرائیل بھی شامل تھے۔

ا ا / م م ( تھوماسن روئٹرز فاؤنڈیشن)

قاتل روبوٹ کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟