1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ڈیجیٹل ورلڈچین

مستقبل کا انٹرنیٹ کون تشکیل دے گا؟

27 مئی 2024

امریکہ اور چین کی دشمنی صرف سیاست اور کاروبار تک ہی محدود نہیں ہے۔ چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gKB8
چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہے
چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہےتصویر: Jade Gao/AFP

اس وقت انٹرنیٹ کے دو مسابقتی ورژن تیار ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے امریکی ورژن پر میٹا، الفابیٹ اور ایپل جیسی کمپنیوں کا غلبہ ہے، جو کھپت اور تجارت میں سرفہرست ہیں۔

دوسری طرف چینی انٹرنیٹ ورژن ہے، جو سروس اور نگرانی کے پلیٹ فارم کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ بائٹ ڈانس، علی بابا اور ٹینسنٹ جیسی چینی کمپنیاں اس انٹرنیٹ ورژن میں تقریباً غیر محدود حد تک مارکیٹ خودمختاری رکھتی ہیں۔

چین کے ورژن کو بیجنگ حکومت کی طرف سے ''ڈیجیٹل سلک روڈ‘‘ کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے اور اسے وسیع ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘(بی آر آئی) کا ڈیجیٹل بازو قرار دیا جاتا ہے۔

لندن کے تھنک ٹینک ''آرٹیکل ‘‘19 نے حال ہی میں چین کے حوالے اسے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ''انڈو پیسیفک میں ڈیجیٹل جبر‘‘ نامی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''چین تکنیکی معیارات اور کثیر الجہتی فورمز کے ذریعے عالمی معیارات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر سالانہ عالمی انٹرنیٹ کانفرنس کے ذریعے، جو سن 2014 سے چین میں منعقد ہو رہی ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے، ''عالمی معیارات کو ایک نئی شکل دینے کے لیے ٹیکنالوجی اور پالیسی تیار کرتے ہوئے چین ایک عالمی تکنیکی سُپر پاور بننے کی خواہش رکھتا ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق چین کا انٹرنیٹ کے بارے میں خیال یا نظریہ ریاستی کنٹرول کے اردگرد گھومتا ہے اور بیجنگ حکومت ''سائبر سکیورٹی، سینسرشپ اور نگرانی‘‘ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

ایک ماخذ، دو نظام

انٹرنیٹ کے ان دو ورژنز کے پیچھے دو مختلف عالمی نظریات ہیں۔ یہ دونوں نظریات اس فرق کو دیکھتے ہوئے مزید واضح ہو جاتے ہیں کہ امریکہ اور چین انٹرنیٹ کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں؟

جرمنی کی ایرفورٹ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سماجیات شٹیفن شمالز نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا ہے، جس کا عنوان ''ڈیجیٹل کیپٹلزم کی مختلف حالتیں‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس مضمون میں چین اور امریکہ کا موازنہ کیا گیا ہے۔

چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہے
چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہےتصویر: Arte

وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کا انٹرنیٹ ورژن ''انٹرپرینیورل آزادی کی ضمانت‘‘ پر مبنی ہے جبکہ چینی انٹرنیٹ ورژن میں ''قومی سلامتی اور سیاسی تحفظات‘‘ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ کے یہ دونوں ورژن اب بھی ایک ہی بنیادی ٹیکنالوجی (HTML، TCP/IP وغیرہ) پر مبنی ہیں۔ تاہم یہ ویب 2.0 کے دور میں ایک دوسرے سے مختلف ہو چکے ہیں۔

ویب 2.0 کے دور میں انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ایمیزون جیسی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی فراہم کردہ ایپلی کیشنز کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔ چین میں اس کے متوازی پلیٹ فارم تیار کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر واٹس ایپ کا چینی متبادل WeChat ہے۔ صارفین کی اکثریت کے لیے یہ دونوں ورژن دو الگ الگ دنیاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں، جو ایک دوسرے کے ساتھ  بالکل بھی رابطے میں نہیں ہیں۔

چین اپنا ڈیجیٹل راستہ خود بنا رہا ہے

چین نے سن 1998 میں ہی امریکہ کے زیر کنٹرول انٹرنیٹ سے خود کو الگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت چینی کمیونسٹ پارٹی نے بیرونی ممالک کے ناپسندیدہ مواد کو فلٹر کرنے کے لیے ایک ''زبردست فائر وال‘‘ بنائی تھی۔

سن 2010 میں گوگل نے چین سے راستے جدا کر لیے کیونکہ وہ کئی دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ سینسر شپ کے رہنما ضوابط کے حوالے سے متفق نہیں ہو سکے تھے۔

اس کے بعد سن 2011 میں چین نے سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن نامی ادارے کی بنیاد رکھی، جو کہ قومی انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرتا اور آن لائن سینسر شپ کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہی ادارہ ہر سال ''عالمی انٹرنیٹ کانفرنس‘‘ کا بھی اہتمام کرتا ہے۔

چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہے
چین ’ڈیجیٹل سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت انٹرنیٹ کا ایک اپنا ورژن بنانے پر کام کر رہا ہےتصویر: Point du Jour

اس طرح چین نے 1.4 بلین چینی صارفین کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ بنائی، جس میں اس کی اپنی ڈیجیٹل کمپنیوں نے ترقی کی اور وہ خوش حال بھی ہوئیں۔ امریکہ کے مقابلے میں چینی کمپنیاں اب بھی چھوٹی ہیں لیکن یہ مستقبل میں امریکی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا ٹک ٹاک، یہ واحد نیٹ ورک ہے، جو امریکہ سے نہیں نکلا اور اس کی ابتدا چین سے ہوئی ہے۔

مستقبل کے انٹرنیٹ کو تشکیل دینے کی جدوجہد

جیسا کہ ٹک ٹاک کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اب دوسروں کی ٹیکنالوجی کاپی نہیں کر رہا بلکہ نئی اور اہم ٹیکنالوجیز کو خود ڈیویلپ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس محاذ پر امریکہ کے ساتھ دشمنی کے ساتھ ساتھ چین کے تجارتی، سیاسی اور جغرافیائی سیاسی مفادات بھی شامل ہیں۔

امریکہ اور چین ایک عرصے سے ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی یہ جنگ فائیو جی انٹرنیٹ سے لے کر کمپیوٹروں اور دیگر آلات میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک چپس اور سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کے استعمال تک جاری ہے۔

ترقی پذیر یا ایسے ممالک، جن کی اپنی ٹیک انڈسٹری نہیں ہے، وہ تیزی سے فیصلہ کر رہے ہیں کہ کس کیمپ میں شامل ہونا ہے؟

تھنک ٹینک ''آرٹیکل ‘‘19 کے مطابق ایک طویل عرصے تک امریکہ رہنما تھا لیکن چین نے انڈو پیسیفک اور خاص طور پر کمبوڈیا،پاکستان، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور نیپال میں واضح طور پر اثر و رسوخ حاصل کیا ہے۔

چینی کی پیروی میں کمبوڈیا سب سے آگے ہے۔ آرٹیکل 19 کی رپورٹ کے مطابق یہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ ملک کس طرح چینی طرز کی ''ڈیجیٹل آمریت‘‘ کو اپنا رہے ہیں۔ کمبوڈیا سن 2021 سے ''نیشنل انٹرنیٹ گیٹ وے‘‘ کے حصے کے طور پر ایک ''گریٹ فائر وال‘‘ کا اپنا ورژن متعارف کرانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

تھنک ٹینک ''آرٹیکل ‘‘19 کے مصنفین کے مطابق چین اپنے ''ڈیجیٹل سلک روڈ‘‘ منصوبے کے تحت ''اوپن اینڈ انٹرآپریبل انٹرنیٹ‘‘ کو کم کرنے میں تیزی سے کامیاب ہو رہا ہے۔

یہ آرٹیکل جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

پورٹ: روڈیون ایبگ ہاوزن

ترجمہ: امتیاز احمد / ع ب