1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل قریب کا افغانستان: پاکستان اور ایران کے خدشات

25 جولائی 2021

ایران اور پاکستان دونوں، افغانستان میں ممکنہ طور پر طالبان کے اقتدار میں آنے کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک کسی طور اپنے ہاں مہاجرین کی آمد نہیں چاہتے۔

https://p.dw.com/p/3xo4P
Afghanistan | Taliban
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

 

عبدالرشید جنگ لڑنے کے لیے پاکستان سے افغانستان گیا تھا۔ اس کے اہل خانہ پاکستانی شہر پشاور کے قریب رہتے تھے۔ اچانک خبر ملی کہ 22 سالہ یہ نوجوان طالبان کی طرف سے لڑتے ہوئے مارا گیا ہے۔ اس کے والدین کے پاس اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے اور اُسے دفنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے عبدالرشید کے ایک انکل کا بیان شائع کیا جس میں وہ کہہ رہے تھے،''رشید نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔‘‘ اُس کے انکل کا مزید کہنا تھا،''وہ جہاد لیے افغانستان گیا تھا۔ اب اس کے نوجوان دوست بھی اسی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں اور وہ بھی شہید ہونا چاہتے ہیں۔‘‘

طالبان 'مصالحت‘ کے لیے تیار ہیں، روس

پاکستان میں حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور طالبان کے ان حامیوں نے ریلیاں بھی نکالیں۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ''افغان جہاد‘‘ میں درجنوں پاکستانی نوجوان ہلاک ہو چُکے ہیں جبکہ اُدھر افغانستان کے بیشتر علاقوں پر طالبان قبضہ کرنے یا انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کر چُکے ہیں۔  

Afghanistan, Kandahar province | Einsatz der Afghan Special Forces gegen die Taliban
صوبے قنداھار میں طالبان کے خلاف افغان اسپیشل فورسز تعیناتتصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

سرحد کے آر پار تفہیم

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور مذہبی شخصیات کے ذریعے ان کے لیے عطیات اکٹھا کرنے کی اپیلیں جو جاری ہیں وہ  پاکستانی حکام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ زاہد حفیظ چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' یہ الزامات بے بنیاد ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘

طالبان امن چاہتے ہی نہیں، افغان صدر

 اسلام آباد حکومت چاہے باضابطہ طور پر خود کو ان جنگجوؤں سے جتنا بھی دور رکھنے کی کوشش کرے لیکن عملی طور پر اسے ''خدا کی جنگ لڑنے کے دعویدار‘‘ ان جہادیوں کے ساتھ کسی نا کسی افہام و تفہیم کے ساتھ چلنے کی ضرورت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ اس کے لیے اقدامات بھی کرتی ہے۔ چند  روز قبل، طالبان نے صوبہ قندھار کے افغان سرحدی شہر اسپین بولدک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ یہاں سے روزانہ تقریباً 900   ٹرک افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے آرپار گزرتے ہیں۔ طالبان نے اسپین بولدک پر قبضے کے بعد ، ابتدائی طور پر پاکستانی سرحد بند کردی۔ پاکستانی حکام اور مقامی افغان طالبان کمانڈر کے مابین مذاکرات کے بعد ، یہ سرحدی گزرگاہ مسافروں کے لیے دوبارہ عبوری طور پر کھول دی گئی تھی۔ افغانستان: سفارتی مشنوں کی طالبان سے لڑائی روکنے کی اپیل

Afghanistan, Kandahar province | Einsatz der Afghan Special Forces gegen die Taliban
طالبان نے افغان صوبے ہرات کے ایرانی سرحد سے نزدیک شہر اسلام قلعہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھاتصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

ایران کا لچکدار رویہ

جولائی کے ابتدائی دنوں میں طالبان نے افغان صوبے ہرات کے ایرانی سرحد سے نزدیک شہر اسلام قلعہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ یہ علاقہ افغانستان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔  ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان اپنی درآمدات کا 15 فیصد ایران سے حاصل کرتا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید خطیب زادہ نے اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا،'' اسلامی جموریہ ایران کی سرحدیں پُرامن اور محفوظ ہیں اور ہماری سرحدوں اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں کسی قسم کا عدم تحفظ نہیں پایا جاتا۔‘‘

چمن میں پھنسے افغان شہریوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت

تاہم سید خطیب زادہ  نے مزید کہا کہ، اس سرحدی علاقے میں طالبان کے ساتھ جھڑپوں  کے بعد افغان سرحدی فورسز کے متعدد اہلکار فرار ہو کر ایران پہنچے تھے۔ چند مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے کئی برسوں تک طالبان کیساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے اب تہران کی قیادت اپنی دوسری ترجیحات طے کر رہی ہے۔

کنپ کرسٹن (ک م/ ع ح)