مس مسلم ورلڈ کا تاج نائجیریا کی حسینہ کے نام
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اگرچہ گزشتہ تین برس سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے کے لیے پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین بھی شریک ہوئیں ہیں۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں مسلم خواتین کے مقابلہ حسن میں نائجیریا کی اکیس سالہ اوبیبئی عائشہ اجیبولہ فاتح قرار پائی ہیں۔ فائنل مقابلہ اٹھارہ ستمبر کو منعقد کیا گیا۔ اس حتمی مرحلے کے لیے نائجیریا سے دو جب کہ ملائیشیا، برونائی، ایران، بنگلہ دیش اور امریکا سے ایک ایک خاتون منتخب کی گئی تھیں۔
عائشہ اجیبولہ کو بطور انعام بائس سو ڈالر کی رقم ادا کی گئی جبکہ انہیں عمرے کے لیے ٹکٹ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں ترکی اور بھارت کی مفت سیر بھی کرائی جائے گی۔ مس مسلم ورلڈ کا تاج پہننے والی مسلم ممالک میں پسماندہ خواتین کی خصوصی سفیر بھی نامزد ہوئیں۔
جکارتہ میں اگرچہ گزشتہ تین برس سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے کے لیے پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین بھی شریک ہوئیں۔ گزشتہ منگل کو شروع ہونے والے چار روزہ سیمی فائنل مقابلے میں بیس خواتین نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
مس مسلم ورلڈ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی خواتین میں زیادہ تر یونیورسٹی کی طالبات تھیں لیکن ان میں ایک آرکیٹیکٹ، ایک ڈاکٹر، ایک یونیورسٹی لیکچرر اور تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک متحرک کارکن بھی شامل تھیں۔
مس مسلم ورلڈ مقابلے میں شریک تمام خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی تھا۔ اس مقابلے میں منتخب ہونے کے لیے تین عمومی شرائط تھیں، خاتون نیک اور سمارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹائلش بھی ہو۔
اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین نے درخواستیں آن لائن جمع کرائیں۔ اس درخواست کے ساتھ امیدوار نے اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے ایک مضمون بھی ارسال کیا اور ساتھ ہی ایک ایسی ویڈیو بھی بھیجی، جس سے ان کے تلاوت قرآن کی مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
عائشہ نے یہ مقابلہ جیتنے کے بعد شکرانے کا سجدہ بھی ادا کیا۔ نائجیریا کی اکیس سالہ عائشہ نے کہا، ’’یہ ایک اچھوتا پروگرام ہے اور میں بہت زیادہ خوش ہوں۔‘‘ مس مسلم ورلڈ مقابلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فارمیسی کی طالبہ عائشہ نے مزید کہا، ’’مس ورلڈ کے مقابلے میں یہ ایک بالکل مختلف ایونٹ ہے کیونکہ اُس میں ظاہری حسن اہم نہیں ہے بلکہ مس مسلم ورلڈ میں اندرونی حسن ہی معیار ہے۔‘‘
اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ روزمرہ زندگی میں بھی حجاب پہنتی ہوں یا پھر ’اسلامی طریقے‘ کے مطابق سر کو ڈھانپتی ہوں۔
اس مقابلے کی شرکاء نے سیمی فائنل مقابلے میں اسلامی مالیاتی نظام، بچوں کی ترییت اور قرآن کو سمجھنے کے حوالے سے مختلف کورسز میں بھی حصہ لیا۔
مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کے دوران یہ خواتین مذہبی عبادات کے لیے علی الصبح تین بجے اٹھتی تھیں۔ اس دوران انہوں نے یتیم بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔
ابتدائی مرحلے میں ججوں نے 100 درخواست دہندگان کو سیمی فائنل کے لیے منتخب کیا گیا۔ مغربی جاوا میں منعقد ہوئے سیمی فائنل مقابلوں میں شرکاء خواتین نے تھکا دینے والے مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لیا۔
’ورلڈ مسلم فاؤنڈیشن‘ کی بانی ایکا شانتے کا کہنا ہے کہ کئی برسوں تک کسی نے بھی ’مس ورلڈ‘ اور ’مس یونیورس‘ جیسے ایونٹس کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب لوگ یہ احساس کر سکتے ہیں کہ ’مس مسلم ورلڈ‘ عالمی مقابلہ حسن کا ایک اسلامی متبادل ہو سکتا ہے۔
آئندہ مس مسلم ورلڈ کا مقابلہ برونائی میں منعقد کیا جائے گا جب کہ تین مختلف ممالک نے مستقبل میں ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ دریں اثناء انڈونیشیا کے حکام نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مس ورلڈ کا مقابلہ اٹھائیس ستمبر کو طے شدہ پروگرام کے تحت ہی منعقد کیا جائے گا۔