1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مزید قاتل گرفتار اور سوچ اب بھی آزاد؟

7 جون 2022

اکیس مئی کو پاکستانی نژاد اسپین پلٹ دو بہنوں کو شادی سے انکار پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ موضوع ہے، جس پر بات کرتے ہی آپ کی حب الوطنی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ کو غدار ثابت کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4CLo9
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

ناجانے کون سی  کھوکھلی انا کی تسکین کے لیے غیرت کے نام پر سال ہا سال سے لڑکیوں کے قتل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ایک طبقے کو یہ سنگین جرم تو منظور ہے مگر اس کا ادراک کرنا  اور اس پر بات کرنا آپ کو ملک دشمن بنا دیتا ہے؟ غیرت کے نام پر معصوم جانیں لینا نہیں چھوڑ سکتے مگر حقوق نسواں کا نام سنتے ہی ایسے بھڑک اٹھتے ہیں کہ یقیناﹰ کوئی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی بات ہی ہو گی، جو کسی 'یہودی سازش‘ کے تحت ہمارے ملک میں لائی جارہی ہے۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گزشتہ ایک برس میں 450 قتل غیرت کے نام پر کیے گئے اور یہ صرف ان واقعات کی تعداد ہے، جو رپورٹ کیے گئے ہیں۔ جرمنی جیسا ملک، جہاں آپ کو ڈھونڈنے سے بھی انگریزی تک میں سائن بورڈ اور اشتہارات نہیں ملتے، وہاں خواتین کے تحفظ کے لیے ایک تصویر اس اُردو تحریر کے ساتھ آویزاں  کی جا رہی ہے۔

تمہاری زندگی۔ تمہارا فیصلہ

تمہاری شادی کروائی جارہی ہے اور تم یہ نہیں چاہتی؟

تم تشدد سے ڈرتی ہو یا تمہاری جان کو خطرہ ہے؟

کیا تم اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہتی ہو؟ 

اور تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟ 

اس تحریر کے ساتھ ویب سائٹ اور خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے نمبر درج ہیں۔

کہیں یہ لوگ انہی بنیادی انسانی حقوق کی بات تو نہیں کر رہے، جو ہمارا مذہب تو ہمیں دیتا ہے مگر پھر بھی ان کا نام لیتے ہی ہم گناہ گار تسلیم کر لیے جاتے ہیں؟

ان اسپین پلٹ بہنوں کو دھوکے سے پاکستان بلایا گیا اور امیگریشن کے کاغذات پر دستخط کرنے سے انکار پر بحث شروع ہو گئی۔ ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کروایا گیا تھا اور اب شوہر اور سسرال والوں  کو طلاق کا مطالبہ کسی صورت قبول نہیں تھا بلکہ وہ ابھی تک اسپین نہ پہنچنے پر نالاں  اور زبردستی کا غذات بنوانے پر بضد تھے۔ انکار کی صورت میں تشدد اور قتل دونوں بہنوں کا مقدر بنا۔

ان بہنوں کی والدہ کو مزاحمت کرنے پر کمرے میں بند کر دیا گیا اور وہ اپنی بیٹیوں کی چیخیں سنتی رہیں، یہاں تک وہ دم توڑ گئیں۔

گزشتہ برس نور مقدم کے قتل کے بعد بہت عرصہ مرحومہ کا کردار ایسے موضوع بنا رہا، جیسے اس کی روح خالق کے پاس پہنچنے کے بعد بھی سزا اور جزا کا فیصلہ کرنا ہم پر ہی فرض ہے۔ کچھ ماہ قبل ایک باپ نے بیٹی کی پیدائش پر نومولود کو اس لیے گولی مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ وہ بیٹے کی پیدائش کی خبر کا منتظر تھا۔ 

ہم 2022ء میں کیا ترقی پسند ممالک کی دوڑ میں شامل ہوں گے، جہاں بحث کر کے سمجھانا پڑتا ہے کہ قصور وار مقتول نہیں قاتل ہے۔ 

ایسی لاتعداد مثالیں ہیں، جہاں دل دہلا دینے والے واقعات کے بعد بھی ہم اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں ملک کی بدنامی نہ ہو۔ کسی نہ کسی طرح متاثرہ لڑکی کو قصور وار ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ لڑکی نے کیا پہن رکھ تھا، وہ اکیلی کیوں تھی اور کس وقت کہاں تھی؟ ان سب سوالات سے کہیں زیادہ ضروری اس پر توجہ دینا ہے کہ وہ مجرم وہاں کیوں تھا اور اس نے ایسا کیوں کیا؟

یہ سوچ کی کیسی آزادی ہے، جو اتنا حق دے دیتی ہے کہ شادی سے انکار پر قتل کر دیا جائے؟ کب اور کیسے ہم نے ایسے رویے کو مردانگی اور غیرت کے مترادف کر دیا؟ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ہر ایک ذمہ دار شہری کو اپنا فرض نبھانا ہوگا۔

جب حقوق نسواں کی بات کی جائے تو بھڑک کر دفاع کرنے کے بجائے کچھ تحمل سے سوچا جا سکتا  ہے کہ  واقعی کچھ مظالم اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ ان پر بات کرنا اور ان کا حل نکالنا ضروری ہے۔ نا جانے کیوں ہم نے بنیادی حقوق پر بات کرنا 'غیر اسلامی‘ سمجھ لیا ہے۔ خاص کر مرد حضرات اتنا کیوں پریشان ہو جاتے ہیں کہ شاید ان پر کوئی ذاتی حملہ کیا جا رہا ہے؟

 بہت سے پڑھے لکھے اور باشعور مردوں کا پہلا رد عمل یہی ہو گا کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں۔ آپ ایسے نہیں ہیں جناب، یعنی آپ مانتے ہیں کہ جو ایسے ہیں وہ غلط ہیں؟ اس لیے آپ کا بھی فرض ہے کہ ایسے ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور معاشرے میں آگاہی پیدا کریں۔

خواتین پر ہونے والے مظالم روکنے کی کسی بھی کوشش کا مقصد مردوں کے خلاف جنگ نہیں بلکہ ظلم کے خلاف جنگ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی ایک تحریک سے مکمل طور پر متفق نہ ہوں۔ مگر خدارا! قتل اور جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے مظالم پر تو غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھیں۔

اگر آپ متاثرہ خواتین کو قصور وار ٹھہراتے رہے اور قاتلوں سے ہمدردی رکھتے رہے تو یہ ایسے مظالم کبھی ختم نہیں ہوں گے۔

 یہ انصاف حاصل کرنے اور مظالم روکنے کی جدوجہد مرد اور عورت کی جنگ نہیں ہے۔ یہ ظلم اور امن کی جنگ ہے۔ اگر حقوق نسواں اور عورت کی آزادی سنتے ہی آپ بھی پریشان ہو جاتے ہیں تو یاد رکھیے سوچ کی تبدیلی سے  معاشرہ محفوظ کسی ایک عورت کے لیے نہیں ہو گا۔ تحفظ اور سکھ کا سانس آپ کے گھر کی ماں، بیٹی، بیوی، بہو کو بھی نصیب ہو گا۔

 مظالم کا ادراک تو کریں، غلط کو غلط کہنے کی ہمت تو کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ باقی ساری دنیا میں کہیں ظلم نہیں ہوتا مگر کم از کم ظلم کو ظلم تسلیم کر کے کچھ سدباب تو کیا جاتا ہے۔ اگر ہم سب مل کر سوچ کو مثبت کریں گے اور تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے تو اس میں ملک کی قطعاً بدنامی نہیں ہے، ہاں مگر   مغربی ممالک کے حکام کو ہماری بچیوں کے لیے اُردو زبان میں اشتہار شائع کر کے ان کے حقوق کی ضمانت دینی پڑے تو یہ ضرور ہماری کمزوری کی نشانی ہے۔