1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مریم نواز ہی کا عہدہ نہیں، بہت سی خاندانی تقرریاں خطرے میں‘

تنوير شہزاد، لاہور12 نومبر 2014

آج کل سیاسی اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے اہم عہدوں پر تعینات کیے جانے والے افراد کے مستقبل کے بارے میں شدید چہ مہ گوئیاں جاری ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نےکہا ہے کہ منظور نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/1Dlsx
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

پاکستان تحریک انصاف کے ایک کارکن زبیر نیازی کے طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی بطور چئیر پرسن قومی یوتھ لون سکیم تقرری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے مریم نواز کی تقرری پر نظرثانی کرن کے لیے حکومت کو دو روز کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر عدالت اس حوالے سے خود فیصلہ جاری کرے گی۔

عدالت میں حکومتی وکیل کا موقف تھا کہ یوتھ لون کی چیئر پرسن کا عہدہ عوامی نہیں بلکہ اعزازی ہے اور وزیر اعظم کو اس پر تقرری کا اختیار ہے۔ اس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ اختیار رکھنے کی وجہ سے کیا کسی ان پڑھ یا باورچی کو بھی اہم عہدے پر فائز کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کو من پسند تقرریوں کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ عمران خان کے دھرنوں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں بھی ایسی تقرریاں زیر بحث آتی رہتی ہیں۔ اس وقت مریم نواز شریف کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین اور حمزہ شہباز شریف سمیت نواز شریف کے خاندان سے تعلق رکھنے والے یا اس خاندان کے منظور نظر کئی لوگ اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔

نواز شریف کی حکومت کو من پسند تقرریوں کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے
نواز شریف کی حکومت کو من پسند تقرریوں کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہےتصویر: SS MIRZA/AFP/Getty Images

مریم نواز کی تقرری کو چیلنج کرنے والے زبیر نیازی کے وکیل شیراز ذکا ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ انیتا ایوب کیس میں تعیناتیوں کے عمل میں شفافیت پر مبنی منصفانہ طریقہ کار اختیار کرنے کو لازم قرار دے چکی ہے۔ ان کے بقول لاہور ہائی کورٹ کے اس تاریخی حکم نامے کے بعد اب اعزازی عہدوں پر بھی شفافیت کو نظرانداز کر کے من پسند افراد کی تقرریاں نہیں کی جا سکیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم نامے کے بعد اب ان تمام افراد کی تقرریوں کو چیلنج کیا جا سکے گا، جنہیں سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا ہے، ’’اصولی طور پر تو جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں خاندان کی حکومت، خاندان کے ذریعے اور خاندان کے لیے کا چلن عام رہا ہے۔‘‘

پاکستان کے سینئر تجزیہ نگار اور روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قوموں کی ترقی اور شفافیت کے معاملے میں اہم عہدوں پر اہل افراد کی تقرریاں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں حکومتوں کی طرف سے من پسند افراد کو نوازنے کی روایت عرصے سے چلی آرہی ہے۔ ان کے بقول یہ سوال پاکستانی میڈیا میں اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اربوں روپے مالیت کی قرضہ اسکیم کی سربراہی کے حوالے سے مریم نواز کے پاس مطلوبہ تعلیم اور تجربہ کتنا ہے ؟

سلمان عابد کے بقول اگر عدالت کے حکم پر مریم نواز کواب ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو پھر بھی حکومت کی بڑی سبکی ہو گی اور آنے والے دنوں میں سیاسی بنیادوں پر میرٹ کے بغیر تعینات ہونے والے بہت سے دیگر افراد بھی اس عدالتی حکم نامے کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس مقدمے کی آئندہ سماعت چودہ نومبر کو ہو گی۔