1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرسی کے خلاف جیل توڑنے اور قتل کا نیا مقدمہ

امتیاز احمد21 دسمبر 2013

معزول صدر محمد مرسی اور دیگر ایک سو بتیس افراد کو سن دو ہزار گیارہ میں جیل توڑنے کے ایک واقعے اور سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے الزام میں ایک نئے مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1AeaN
تصویر: picture-alliance/AP

خبر رساں ادارے روئٹرز نے مصری دفتر استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہےکہ اس نئے مقدمے میں فلسطینی تنظیم حماس اور لبنانی تنظیم حزب اللہ کے تقریباﹰ 70 کارکنوں کو بھی ملوث قرار دیا ہے۔ یہ مقدمہ ان افراد کی غیر موجودگی میں چلایا جائے گا۔ اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے معزول صدر محمد مرسی کے خلاف یہ تیسرا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

وکیل استغاثہ کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کے ابتدائی ایام میں عسکریت پسندوں نے ایک جیل پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ہزاروں قیدی فرار ہو گئے تھے۔ وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ حملہ اخوان المسلمون، حماس، حزب اللہ اور دیگر جہادی تنظمیوں کے عسکریت پسندوں نے کیا تھا اور ان تنظمیوں کے متعدد اراکین فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اس نئے مقدمے میں جن بڑے لیڈروں کے نام سامنے آئے ہیں، ان میں حماس سے تعلق رکھنے والے ایمن نوفل، حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے محمد منصور ، اخوان المسلمون کے محمد مرسی اور قطر کے مشہور مذہبی رہنما یوسف القراداوی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ جس وقت جیل توڑی گئی تھی، اس وقت یہ سبھی لیڈر جیل میں قید تھے۔ سن دو ہزار گیارہ میں جیل توڑنے کے اس واقعے میں محمد مرسی کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کے دیگر اہم رہنماؤں سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔

Ägypten Prozess Muslimbruderschaft 11.12.2013
ان اسلام پسند رہنماؤں کے خلاف عائد کیے جانے والے یہ اب تک کے سنگین ترین الزامات ہیں، جن کے ثابت ہونے کی صورت انہیں سزائے موت بھی سنائی جاسکتی ہےتصویر: Reuters

سن 2011ء میں جیل سے باہر آنے کے فوری بعد محمد مرسی نے ایک مختصر انٹرویو میں کہا تھا کہ سکیورٹی گارڈز جیل میں نہیں تھے اور اور قیدی اپنے کمروں سے باہر نکل گئے۔ اس واقعے کے بعد محمد مرسی اپنی تنظیم سمیت حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شامل ہو گئے تھے۔ گیارہ فروری کو حسنی مبارک نے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف مظاہرین کو قتل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ حنسی مبارک کے وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ ان پرتشدد واقعات کی ذمہ دار بھی اخوان المسلمون ہی ہے۔

دوسری جانب محمد مرسی کو معزول کیے جانے کے بعد سے فوج کی حمایت یافتہ حکومت ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر چکی ہیں، جن میں زیادہ تر اسلام پسند شامل ہیں۔

ان اسلام پسند رہنماؤں کے خلاف عائد کیے جانے والے یہ اب تک کے سنگین ترین الزامات ہیں، جن کے ثابت ہونے کی صورت انہیں سزائے موت بھی سنائی جاسکتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق مصر کی موجودہ حکومت نے اخوان المسلمون کے اعلیٰ عہدیداروں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے تاکہ انہیں آہستہ آہستہ مفلوج کر دیا جائے۔

دریں اثناء سن 2012ء میں محمد مرسی کے مقابلے میں انتخابات لڑنے والے محمد شفیق کے خلاف عائد کردہ کرپشن کے الزامات ختم کر دیے گئے ہیں۔ حسنی مبارک کے دور اقتدار میں وزیراعظم رہنے والے محمد شفیق انتخابات میں ناکامی کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگر آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں آرمی چیف عبدالفتاح السیسی امیدوار ہوتے ہیں تو محمد شفیق ان میں حصہ نہیں لیں گے۔ محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام بھی عبدالفتاح السیسی پر عائد کیا جاتا ہے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کے خلاف نئے مقدمے کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب جنوری میں نئے ملکی آئین سے متعلق ایک ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فوج کی حمایت یافتہ حکومت آئین کے اُس چارٹر میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے گی، جس کا مسودہ مرسی کی اسلام پسند حکومت نے تیار کیا تھا۔ نئی حکومت آئندہ ریفرنڈم میں آئینی تبدیلیوں کے لیے عوامی سطح پر ’’ہاں‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

اخوان المسلموں کے وکیل صفائی محمد الدماطی نے اس نئے مقدمے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرا سر ’سیاسی مقدمہ‘ ہے اور حکومت اپنے پر تشدد کریک ڈاؤن کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔