1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرسی کے حامیوں کا احتجاج جاری

Kishwar Mustafa5 جولائی 2013

مصری صدر محمد مرسی کے اقتدار کا خاتمہ ملک کے اسلام پسندوں کے لیے ایک گہرے صدمے کا باعث بنا ہے۔ اس کے باوجود وہ احتجاج جاری رکھنا کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/192g1
تصویر: Reuters

فوج کی طرف سے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اب تک عمل میں نہیں آئی ہیں اور سابقہ اپوزیشن پارٹیوں نے اسلام پسندوں کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دینے کے عمل سے انکار کر دیا ہے۔

مصری صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے ایک روز بعد بھی بہت سے افراد یقین نہیں کر پا رہے کہ ایسا ہوا ہے۔ اس دوران انہیں خطرہ ہے کہ احتجاجی مقامات پر حملے بھی کیے جاسکتے ہیں اور اُن کے لیڈروں کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حفاظتی اقدامات کے طور پر وہ چند روز پہلے کی نسبت اب زیادہ ہلمٹ پہنے اور لاٹھیوں سے لیس نظر آ رہے ہیں۔ داخلہ دروازوں کو پتھریلی دیواروں سے محفوظ کر دیا گیا ہے جن کے عقب پر لاٹھیوں اور شیلڈوں سے لیس نوجوان کئی قطاروں میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ سکیورٹی اقدامات بہت سخت کر دیے گئے ہیں۔ اسلام پسند مختلف خدشات کے باوجود پُر امن نظر آ رہے ہیں۔Free Egyptians Party کے ایک سرگرم عبدل بار زاہران کے بقول،’ میں پُر امید ہوں، یہاں تک کہ اسلامی گروپوں نے بھی اپنے پیروکاروں کو پُر تشدد کارروائیوں کے لیے نہیں اُکسایا ہے۔ عہدے سے علیحدہ ہونے والے صدر مرسی نے بھی اخوان المسلمون کے پیرو کاروں کو احتجاج کے دوران تشدد پر اترنے سے باز رہنے کو کہا ہے‘۔

Ägypten nach Mursi-Sturz
مرسی کی حامی ایک خاتون مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

مصر کا اسلامی گروپ ایک ’انتہا پسند سلفی تنظیم‘ ہے۔ جو ماضی میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ تمام اسلام پسند مظاہرین کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے باوجود اب تک مصری فوج نے کسی بھی احتجاجی مقام پر کوئی آپریشن نہیں کیا ہے۔ حالانکہ بغاوت کے بعد سے سڑکوں پر بکتر بند اور دیگر فوجی گاڑیاں گشت کرتی دکھائی دے رہی ہیں تاہم اسلامی گروپوں کے پیروکاروں کے خلاف فوج نے کوئی عامدانہ سلوک نہیں کیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے مظاہرین کو احتجاجی مقامات تک پہنچنے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم جب فوج کو یہ تاثر دیا گیا کہ اُن کی موجودگی مطلوب نہیں ہے تو وہ وہاں سے ہٹ گئی۔

دوسری جانب چند مقامی ذرائع سے گزشتہ روز مظاہرین پر ہونے والے حملوں کی خبر ملی ہے۔ چھپ کر حملہ کرنے والوں نے تین افراد کو گولی کا نشانہ بنایا۔ ایک کو سر پر، دوسرے کو پیٹ میں اور تیسرے شخص کو ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ روز فوج نے اسلام پسندوں کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بند کر دیا تھا جس کے سبب کسی کو ان حملوں کی خبر نہ ہو سکی۔

Pro-Mursi Proteste in Kairo 04.07.2013
مسلم برادر مرسی کے حق میںتصویر: Reuters

سرکاری اخبار الاحرام کی رپورٹ کے مطابق اسلامی گروپوں کے 300 کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، غالباً اب تک اس عمل کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ اخوان المسمون نے کہا ہے کہ اُس کے متعدد اراکین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی گئی ہیں۔

مصر کی لبرل پارٹی وہی غلطی نہیں دہرانا چاہتی ہے جو اسلامی پارٹیوں نے کی ہے، یعنی اپنے سیاسی مخالفین کو نظر انداز کرنے کی غلطی۔

مصری شہر منصورا سے تعلق رکھنے والے ایک امام محمد عبدل لام کا ایک بیان میں کہنا تھا،’ہم اپنا پُر امن احتجاج اور جمہوری خط استوار رکھیں گے اور یہاں اُس وقت تک مظاہرہ جاری رکھیں گے جب تک محمد مرسی دوبارہ اقتدار میں نہیں آ جاتے۔ آج، کل یا آئندہ برس، جب تک یہ نہیں ہوتا ہم یہیں رہیں گے اور اپنی فیملی کو بھی اس جدو جہد میں شامل کر لیں گے‘۔

مظاہرین کے اس رویے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو اسلام کے خلاف بغاوت سمجھ رہے ہیں۔

M.Sailer/F.Wintgens/km.ai