1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محمود عباس کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی صورت حال

5 جنوری 2012

اردن میں مشرق وسطٰی کے امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس کو کافی مسائل کا سامنا ہے۔ منگل کو پندرہ ماہ بعد اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کے درمیان پہلی بار دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے۔

https://p.dw.com/p/13ehb
تصویر: AP

اس سے پہلے فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا آخری دور ستمبر 2010 ء میں تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ محمود عباس نے اس وقت تک اسرائیل سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا جب تک کہ یہودی بستیوں کی توسیع روک نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال ستمبر میں انہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو ایک آزاد ملک کا درجہ دینے کی درخواست جمع کرا دی۔ مگر انہیں ان دونوں مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

محمود عباس کے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہوں، اقوام متحدہ میں یکطرفہ کارروائی یا حماس کے ساتھ قربتیں بڑھانے کی کوششیں، یہ سب چیزیں خطرات سے عبارت ہیں۔

اگر محمود عباس نے اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر پابندی کے بغیر ہی باضابطہ امن مذاکرات شروع کر دیے تو فلسطینی عوام میں انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ انتہا پسند تنظیم حماس کی جانب سے بھی ان پر سخت تنقید کی جا سکتی ہے۔

Flash-Galerie Historische Nahostgespräche Israelische Siedlung im Westjordanland
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ یہودی بستیوں کی توسیع کا مسئلہ ہےتصویر: AP

حماس نے پہلے ہی یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کیے گئے تو وہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کی کوششوں سے دستبردار ہو جائے گی۔

ابھی حال ہی میں عباس کی فتح تحریک اور حماس نے فلسطینی علاقوں میں نئے انتخابات منعقد کروانے کے لیے عارضی طور پر اتفاق کیا ہے۔ محمود عباس کے نزدیک غزہ، غرب اردن اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے خواب کو شرمندہ ء تعبیر کرنے کے لیے یہ مصالحت ناگزیر ہے۔

تاہم انہیں بین الاقوامی سطح پر اس مصالحت کی حساسیت کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین حماس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل کسی بھی ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات منقطع کر دے گا جس میں حماس کے اراکین شامل ہوں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین بھی لاکھوں ڈالر کی وہ امداد بند کر سکتی ہے جو محمود عباس کی غرب اردن میں حکومت کو چلانے کے لیے ضروری ہے۔

جہاں تک اقوام متحدہ میں فلسطین کی بطور آزاد ریاست رکنیت کا سوال ہے تو یہ معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے صرف ایک ادارے یعنی یونیسکو نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا جس کا خمیازہ اسے امریکی مالی امداد کی بندش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

Palästinenser Chaled Meschaal
حال ہی میں فلسطینی تنظیموں کے ایک اجلاس میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ خالد مشعل نے مصالحت کی ضرورت پر زور دیا تھاتصویر: AP

فلسطینیوں کا مؤقف ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک مذاکرات بے سود ہیں جب تک کہ وہ غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی توسیع کا سلسلہ روک نہیں دیتا جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مذاکرات کسی بھی پیشگی شرط کے بغیر منعقد ہونے چاہئیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے دونوں فریقوں کے درمیان تازہ مذاکرات کے دور کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے امن عمل میں مدد ملے گی۔

عمان میں اردن کے وزیر خارجہ ناصر جودہ نے کہا ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرات کاروں کے درمیان تازہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے تاہم دونوں فریقوں نے بامعنی نتائج کی خاطر انہیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں