محمد یونس گرامین بینک چھوڑ دیں، بنگلہ دیشی حکام
17 فروری 2011بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ نے محمد یونس کو انتہائی قابل احترام شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا، ’وہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہمیں بینک کے کردار کا نئے سرے سے تعین کرنے اور اس کی نگرانی بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘
ستّر سالہ محمد یونس، جو2007ء میں اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر چکے ہیں، نے عبدالمحیط کے اس بیان کا براہ راست جواب نہیں دیا۔ تاہم خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ’جب وقت آئے گا، توکسی بھی تبدیلی کے لیے بینک کے اندرونی اور بیرونی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے دوستانہ ماحول اور حمایت ضروری ہو گی تاکہ غریبوں کے لیے اور ان کے ساتھ اپنے مشن سے مکمل طور پر وابستہ رہیں۔‘
گزشتہ برس ناروے کے ایک ٹیلی ویژن نے اپنی ایک دستاویزی فلم میں کہا تھا کہ گرامین بینک نے1990ء کی دہائی میں ٹیکسوں کے تناظر میں ناروے کے ایک امدادی ادارے کی جانب سے فراہم کیے گئے فنڈز کی قانونی مَد تبدیل کر دی تھی۔
اس دستاویزی فلم کے منظر عام پر آنے کے بعد بنگلہ دیش میں اور بیرون ملک محمد یونس کے بارے میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا، جن کے بینک نے چھوٹے قرضوں کی مَد میں بالخصوص خواتین کو دس ارب ڈالر کے انفرادی قرضے دیے، جس کا مقصد انہیں کاروبار شروع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہوئے غربت سے چھٹکارا دلانا تھا۔
بعدازاں ناروے کی حکومت نے کہا کہ گرامین بینک کے خلاف الزامات کی تفتیش کی گئی لیکن بدعنوانی اور فنڈز کے غلط استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
گرامین بینک کے خلاف یہ الزامات ایسے وقت سامنے آئے، جب بھارت سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے قرضوں کے نظام کو سیاسی مخالفت کا سامنا تھا۔ وہاں سیاستدان بینکاروں کو غریبوں سے منافع حاصل کرنے میں ملوث قرار دے رہے تھے۔
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے محمد یونس پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لئے ’حربے‘ استعمال کیے۔
دوسری جانب عبدالمحیط کا کہنا ہے، ’حکومت نے ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی ہے، جو تین ماہ میں اپنی سفارشات پیش کرے گی، جس کے بعد ضرورت ہوئی تو کوئی کارروائی کی جائے گی۔‘
اُدھر محمد یونس کے چاہنے والوں اور دوستوں نے ان کی حمایت کے لیے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق