1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محبت کے جذبے سے خوفزدہ معاشرہ

25 فروری 2022

میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے۔ نوے کی دہائی میں جگر مراد آبادی کا یہ مصرع میں نے اسکول جانے سے قبل ناشتہ کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ صاحب کو صبح کی نشریات میں اکثر کہتے ہوئے سنا۔

https://p.dw.com/p/47a9O
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

تب تک لفظ محبت کے معنی سے میں باقی تمام بچوں کی طرح  نابلد ہی تھی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ میڈیا کی مہربانی، کچھ نصابی کتب کے شعراء کی اور کچھ معاشرتی روایات کی کہ اس لفظ کا مطلب صرف ہیرو ہیروئن تک ہی محدود رکھنا مناسب سمجھ آیا۔ یعنی یہ جذبہ ایسی کوئی معیوب چیز ہے کہ اسے چھپا کر رکھنا ضروری  ہے اور فلموں، ڈراموں، موسیقی اور شاعری تک ہی جائز ہے۔

ہماری نسل اس جذبے کا اظہار سگے ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار، دوست احباب کسی سے بھی نہیں کر سکتی بلکہ اس کا نام بھی لینا قدرے معیوب ہی سمجھتی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھانا کہ خالق کی تمام مخلوق سے محبت کرو، چرند پرند اور درخت تو دور کی بات، عام انسان سے محبت ہی کچھ انسانی دسترس سے باہر کا معاملہ لگتا ہے۔

 ہم سب کسی نہ کسی حد تک اس جذبے سے خائف ہیں۔ حقیقتاﹰ یہ جذبہ بانٹنے سے بڑھتا ہے مگر نہ جانے کیوں ہمیں اسے آپس میں بانٹنا گھاٹے کا سودا لگتا ہے؟  اس کی مثال گھر گھر کی کہانی ہے، بیویاں شوہروں کو ان کے ماں باپ سے دور رکھنا چاہتی ہیں اور شوہر بیوی کو اس کے گھر والوں سے۔ یہ کیا عدم تحفظ ہے کہ سب کی اپنی اپنی جگہ کو کوئی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا؟ زیادہ تر خاندانی سیاست اور مسائل اسی عدم تحفظ کی پیداوار لگتے ہیں۔ کسی رشتے دار کی کوئی چھوٹی سی بات تو ہم سال ہا سال دل میں رکھ سکتے ہیں مگر محبت اور صلہ رحمی بہت بھاری لگے گی۔

گھر سے باہر ذرا عملی زندگی پر نظر ڈالیں تو بھی ایسی ہی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہم نفرت کے اظہار میں بالکل تاخیر نہیں کرتے بلکہ ہر معاملے میں اختلاف رائے اور دوسرے کو نیچا دکھانا بہت آسان اور باعث سکون عمل معلوم ہوتا ہے۔ جس قدر فطری شدت کا مظاہرہ ہم نفرت کے جذبے کے ساتھ کرتے ہیں شاید کبھی بھی محبت کے لیے کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مذہبی شدت پسندی اس کی ایک زندہ مثال ہے، جہاں ہم دوسروں کو زندہ ہی  نہیں چھوڑتے۔

دراصل ہم اپنے مذہب سے محبت سے زیادہ دوسرے کی نفرت میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنے ہی دین کی امن وسلامتی کی تعلمیات بھول کر  نفرت کی آگ میں جانیں نگل جاتے ہیں۔ جوزف کالونی سے سانحہ سیالکوٹ تک ہمیں محبت کے نام پر صرف نفرت ہی پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔

سیاسی اختلافات سے ذات پات تک ہر گفتگو میں کہیں نہ کہیں دوسرے فریق کے لیے نفرت کا اظہار انتہائی جذباتی رد عمل سے کیا جاتا ہے مگر ایک دوسرے کی تائید کرنا، ذہن کے قفل کھول کر دوسرے کے نظریے کو کچھ گنجائش دینا کوئی خاص فطری عمل نہیں ہے۔ 

ایسا ہی ماجرہ جنسی تعصب میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے مرد عورت ہر وقت مدمقابل ہیں اور ہر رشتے میں ہی کسی مقابلے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اگر عورت اپنا حق مانگے تو اس کی بات کو اہمیت دیے بغیر اسے بری عورت ثابت کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

 اسی طرح اکثر تمام مردوں کو بھی ایک ہی پیمانے سے ناپا جاتا ہے اور سب کا کردار سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ یہ جنسی تعصب جتنا فوری اور شدید ملتا ہے، اس کے برعکس محبت، ٹھہراؤ اور برداشت کا فقدان ہی پایا جاتا ہے اور تان پھر وہی محبت کی گھسی پٹی  حد ایک ہی رشتے کی قبولیت پر ٹوٹتی ہے۔

 محبت کو محض ایک رشتے سے جوڑنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عام طور پر لڑکے لڑکیاں اس رشتے سے بھی کوئی غیرحقیقی توقعات رکھ لیتے ہیں اور زندگی کو کسی فلم یا غزل  کی طرح ہی گزارنا چاہتے ہیں۔ عملی زندگی عام طور پر اس فلمی سانچے کو زیادہ دیر چلنے نہیں دیتی اور حقیقت آش کار ہوتے ہی مایوسی اور جھگڑے دونوں ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ حتی کہ اس رشتے میں بھی ہم بچوں کے سامنے بحث یا جھگڑا تو سہولت سے کرتے ہیں مگر پیار سے کوئی بات کرنا حرام سمجھتے ہیں۔

نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر تسکین حاصل کرنا بھی انہی رویوں کی ایک اور مثال ہے۔ ایک دوسرے کی ترقی دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اسے نیچا دکھانا، کام میں نقص نکالنا، اپنے آپ کو زیادہ قابل ظاہر کرنا ہمیں آسان لگتا ہے۔ اسی طرح طبقاتی فرق بھی اس جذبے پر حاوی ہی رہتا  کیونکہ معاشی حیثیت بھی اکثر عزت اور  محبت کے پیمانے کی تعریف بن جاتی  ہے۔

ولیم جیمز، جنہیں ’’فادر آف امریکن سائیکالوجی‘‘ مانا جاتا  ہے، کہتے ہیں کہ انسان اپنی ممکنہ استعداد کے مقابلے میں ایک بہت چھوٹے دائرے میں زندگی بسر کر دیتا ہے جبکہ ہر کردار میں آگے بڑھنے اور بہتری کی گنجائش  ہمیشہ رہتی ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنے رویوں کو شعوری طور پر بہتر بنانے کی کوشش کریں تو یقیناﹰ محبت کے جذبے کو نفرت پر غالب کر سکتے ہیں۔

نئی نسل کو اس جذبے سے خائف کرنے کی بجائے اسے ایک خالص اور قابل قدر سوچ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا، ترقی کا بڑھاوا دینا، کھلے دل اور گنجائش سے اختلاف رائے برداشت کرنا بھی تو فطری عمل بن سکتا ہے۔ ہر انسان مختلف سوچ، مذہب، سیاست، معاشی طبقے اور علمی رتبے سے تعلق رکھنے کے باوجود محبت کے قابل تو پھر بھی رہتا ہے۔

ہم ہمدردی یا ترس کا تعلق پھر بھی جوڑ کر اپنے آپ کو عظمت کے رتبے پر لے جاتے ہیں تو پھر بے غرض اور پرخلوص محبت سے اتنا خوف کیوں؟