مجوزہ پاک بھارت مذاکرات کے موضوعات
14 جولائی 2010سن 2008ء میں ممبئی شہر میں ہونے والے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد نئی دہلی حکومت نے پاکستان کے ساتھ امن عمل معطل کر دیا تھا۔ تب سے دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا باقاعدہ اعلیٰ سطحی رابطہ ہے، جس سے دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا تھا کہ اِن مذاکرات کے لئے کوئی طے شُدہ ایجنڈا نہیں ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات دراصل ہو ہی اِس ایجنڈے کی تشکیل کے لئے رہے ہیں:’’دونوں ملک بات چیت کے ذریعے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کونسے موضوعات ہیں، جنہیں دونوں ممالک ایجنڈے میں شامل کرنے پر متفق ہو سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ بھارت دہشت گردی سے متعلقہ امور پر زیادہ زور دے گا جبکہ پاکستان کی کوشش ہو گی کہ اِس موضوع کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کو بھی زیرِ بحث لایا جائے۔
اِس بار بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران سرحد پار دہشت گردی کے ساتھ ساتھ منقسم کشمیر پر بھی بات ہو گی۔ ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق اگر کشمیر پر بات ہوئی بھی تو بنیادی بات یہ ہو گی کہ کیا اِس مسئلے پر بات چیت نئے سرے سے شروع کی جائے یا بات چیت کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ جوڑا جائے، جہاں سے منقطع ہوا تھا۔
انٹرویو: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق