متنازعہ یروشلم علاقوں میں مزید 900 مکانات کی تعمیر کا اسرائیلی فیصلہ
18 نومبر 2009اس اعلان سے فلسطین۔اسرائیل امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کو ایک اورشدید دھچکالگا ہے۔ عالمی برادری نے فوری طور پر اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اس قسم کے جارحانہ اقدامات سے گریز کرے۔
یہودی آباد کاری کے منصبوے میں مزید توسیع پراسرائیل کے قریبی حلیف سمجھے جانے والے ملک امریکہ نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کوخدشہ ہے کہ یروشلم میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سےمذاکراتی سلسلے کی بحالی کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
صدر باراک اوباما کے ترجمان رابرٹ گبس کا واشنگٹن میں کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں اس اعلان نے فریقین کے درمیان مذاکرات بحال کرانے کو مزید مشکل کردیا ہے۔ امریکی موقف کی وضاحت کرتے ہوے گبس نے کہا کہ یروشلم کا معاملہ ایک حل طلب مسئلہ ہے جس کا حل، فریقین کے مابین مذاکرات کے ذریعے ہی نکلنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق، مشرقی وسطیٰ کے لئے اوباما کے خصوصی مندوب جارج مچل کے ذریعے اسرائیلی حکام کو اس فیصلے پر امریکی ناراضگی سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے طویل عرصے سے جاری اس تنازعے کے حل کا عزم ظاہر کرکے اسرائیل کو اس قسم کے جارحانہ اقدامات سے باز رہنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ امریکی صدر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کو امن اور فلسطین کو آزاد ریاست کے قیام کی خاطر اعتماد سازی کی فضا بحال کرنا ہوگی۔
دوسری جانب، بن یامین نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت، کسی عالمی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیرمشرقی یروشلم کے متنازعہ علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت نے ایسے وقت میں یہودی بستیوں میں مزید توسیع کی بات کی ہے، جب فلسطینی حکام امن مذکرات کی بحالی کے لئے پہلے سے جاری تعمیراتی سرگرمیوں کو مکمل طورپر روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امن مذاکرات گزشتہ سال دسمبر کی غزہ جنگ کے بعد سے منقطع ہیں۔
تنازعے کے دوسرے فریق، فلسطین کی جانب سے اب اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ذریعے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب ائرکات کے بقول عرب وزرائے خارجہ کے حمایت یافتہ منصوبے کے تحت سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کو 1967 ء کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل یورپی یونین، روس، افریقی، ایشیائی اورلاطینی ممالک کی حمایت حاصل کی جائے گی پھر امریکہ پر دباو بڑھایا جائے گا کہ اگر وہ اسرائیل کو متنازعہ اقدامات اٹھانے سے نہیں روک سکتا تو پھر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے سے متعلق قرارداد کو بھی ویٹو نہ کرے۔
واضح رہے کہ فلسطین میں عسکری جماعت حماس اور صدر محمودعباس کی الفتح کے باہمی اختلافات بھی تنازعے کی حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یاد رہے کہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نےمشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کے تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ دوسری جانب فلسطین اس خطے کو اپنی آزاد اور خودمختار ریاست کا دارالحکومت بنانے کے لئے پرعزم ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ