1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ امریکی سفیر کی جرمنی سے ملک بدری کے مطالبات شدید تر

5 جون 2018

جرمنی میں کئی اہم رہنماؤں کے یہ مطالبات شدید تر ہو گئے ہیں کہ چانسلر میرکل کی حکومت کو برلن متعینہ متنازعہ امریکی سفیر رچرڈ گرینل کو ملک بدر کر دینا چاہیے۔ گرینل پر جرمنی اور یورپ کی داخلی سیاست میں مداخلت کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/2yyRx
برلن متعینہ امریکی سفیر رچرڈ گرینلتصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے منگل پانچ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ گرینل سیاسی طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور معتمد ہیں۔ لیکن ان پر الزام ہے کہ وہ سیاسی اور سفارتی حوالے سے اپنے عہدے کی غیر جانبدارانہ نوعیت کے تقاضوں کے برعکس کئی بار جرمنی اور یورپ کی داخلی سیاست میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

امریکی سفیر گرینل کی جرمن اور بالواسطہ طور پر یورپی داخلی سیاست میں مبینہ مداخلت جرمن اور یورپی سیاستدانوں کو اس لیے بھی ناگوار گزری ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری ڈیل اور پھر امریکا اور یورپی یونین کے مابین تجارتی محصولات کے تنازعے سمیت کئی شعبوں میں پائے جانے والے اختلافات کے باعث یورپی امریکی تعلقات پہلے ہی سے کھچاؤ کا شکار ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب جرمنی میں خاص کر یہ مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ برلن حکومت کو رچرڈ گرینل کو ملک بدر کر دینا چاہیے۔ گرینل نے برلن میں امریکی سفیر کے طور پر اپنےفرائض ابھی آٹھ مئی کو سنبھالے تھے۔ پھر اسی روز انہوں نے یہ غیر متوقع کام بھی کر دیا کہ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جرمن کمپنیوں کو ایران کے ساتھ اپنا ہر قسم کا کاروبار اس لیے بند کر دینا چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کر چکے ہیں۔

Deutaschland Bundespräsident Frank-Walter Steinmeier akkreditiert Botschafter
رچرڈ گرینل، بائیں، اور ان کے شریک حیات میتھیو لیشی، دائیں، گرینل کی طرف سے اسناد تقرری پیش کرتے وقت وفاقی جرمن صدر شٹائن مائر کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

گزشتہ ویک اینڈ پر رچرڈ گرینل اس وقت بھی یورپی رہنماؤں کو خفا کرنے کا باعث بنے جب دائیں بازو کی سوچ کا پرچار کرنے والی ایک ویب سائٹ ’برائٹ بارٹ‘ پر ان کا یہ بیان شائع ہوا کہ وہ ’یورپ بھر میں دیگر قدامت پسند رہنماؤں کو بھی زیادہ بااختیار بنانے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رچرڈ گرینل کے ان ارادوں کی وجہ سے بھی یورپ میں کئی رہنماؤں کو اس وقت شدید حیرانی ہوئی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ 13 جون کو آسٹریا کے انتہائی قدامت پسند چانسلر سباستیان کُرس کے اعزاز میں ایک ظہرانے کی میزبانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جرمنی میں امریکی سفیر نے سباستیان کُرس کو ایک ’’روک سٹار‘‘ بھی قرار دیا تھا۔

جرمنی میں سرکردہ سیاسی حلقے رچرڈ گرینل کے اس طرز سفارت کاری کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اس کا اظہار جرمنی کے ایک یورپی سطح کے اعلیٰ سیاستدان مارٹن شُلس کے ردعمل سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ شُلس جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق سربراہ اور چانسلر میرکل کے چانسلرشپ کے لیے حریف امیدوار رہنے کے علاوہ یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔

مارٹن شُلس کے مطابق، ’’یہ شخص (رچرڈ گرینل) جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ تو بین الاقوامی سفارت کاری میں کبھی کسی نے دیکھا نہ سنا۔‘‘ شُلس کے الفاظ میں، ’’اگر واشنگٹن میں کوئی جرمن سفیر کبھی یہ کہتا کہ وہ امریکا میں ڈیموکریٹس (ٹرمپ کی مخالف سیاسی جماعت کے سیاستدانوں) کو زیادہ طاقت ور بنانے کے لیے واشنگٹن آیا ہے، تو اسے فوری طور پر امریکا سے نکال دیا جاتا۔‘‘

مارٹن شُلس نے اس سے قبل ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ بھی کہا تھا، ’’امریکی سفیر کا رویہ کسی سفارت کار کی طرح کا نہیں بلکہ انتہائی دائیں باز وکے کسی نوآبادیاتی اہلکار کے رویے کی طرح کا ہے۔‘‘

دریں اثناء وفاقی جرمن وزارت خارجہ رچرڈ گرینل سے ان کے کئی حالیہ لیکن متنازعہ بیانات کی وضاحت بھی چاہتی ہے۔ اس کے لیے برلن کی وزارت خارجہ میں ریاستی امور کے اسٹیٹ سیکرٹری میشائیلیز کے ساتھ گرینل کی ایک ملاقات کل بدھ چھ جون کے لیے طے ہو چکی ہے۔

اسی طرح جرمنی کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لِنکے کی خاتون سربراہ سارا واگن کنَیشت نے بھی کہا ہے کہ جرمنی میں امریکی سفیر کے طور پر رچرڈ گرینل ثابت کر چکے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ عہدے کے اہل نہیں ہیں۔

چانسلر میرکل کے مرکز سے دائیں باز وکی طرف جھکاؤ رکھنے والے حکومتی بلاک کے پارلیمانی دھڑے کے خارجہ سیاسی امور کے ترجمان ژُرگن ہارٹ کے مطابق، ’’رچرڈ گرینل واضح طور پر یورپی یونین کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

اگر جرمنی سے موجودہ امریکی سفیر کو ممکنہ طور پر ملک بدر کیا گیا، تو یہ جرمن امریکی تعلقات کو گزشتہ کئی عشروں کے دوران لگنے والا سب سے بڑا اور تکلیف دہ سیاسی دھچکا ہو گا۔

م م / ش ح / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں