متحدہ عرب امارات میں امریکی جنگی طیاروں کی تعیناتی خطرہ ہے، ایران
1 مئی 2012ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ’رامین مہمان پرست‘ کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم کسی بھی طرح خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو منظور نہیں کرتے۔ ہم نے علاقائی ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو بڑھانے کے لیے بنیاد فراہم نہ کی جائے۔‘‘
ایک نشریاتی ادارے ’العالم چینل‘ نے ایرانی وزیر دفاع احمد وحیدی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے، ’’ خطے میں اس طرح کی تعیناتی بیکار اور نقصان دہ ہے۔ اس طرح کے اقدام زیادہ تر ’نفسیاتی رجحان‘ اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔‘‘
ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ F-22 ماڈل کے کئی لڑاکا طیاروں کو متحدہ عرب امارات کی Al-Dhafra ایئر بیس پر بھیجا گیا ہے۔ اس امریکی عہدیدار نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ان کا شمار امریکی فضائیہ کے جدید ترین جنگی طیاروں میں ہوتا ہے۔ دریں اثناء پینٹاگون کے ایک ترجمان کیپٹین جان کربی نے اسے ایک ’عام تعیناتی‘ قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ ایران پر ’چاروں اطراف‘ سے دباؤ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری ہیں اور اسی سلسلے میں آئندہ اجلاس کا انعقاد 23 مئی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا جائے گا۔ تاہم اسرائیل نے خبردار کر رکھا ہے کہ وہ سفارتی کوششوں کی ناکامی کی صورت میں ایران کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔
دوسری جانب اس دھمکی کے جواب میں ایران نے خام تیل کی ترسیل کے انتہائی اہم اسٹریٹیجک راستے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا کہہ رکھا ہے۔
ایران کی طرف سے متحدہ عرب امارات کے ہمسایہ ملک سعودی عرب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سعودی عرب نے عندیہ دیا ہے کہ وہ خام تیل کی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ خواہش ایک ایسے وقت پر ظاہر کی گئی ہے، جب مغربی ملکوں کی طرف سے ایرانی تیل کی درآمد پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
ia/aba (AFP)