1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالياتی شعبے اور سياست کا گٹھ جوڑ

15 نومبر 2012

بڑے بينکوں کو اقتصاديت کے ستون سمجھا جاتا ہے جن کے گرنے سے پوری عمارت ڈھے سکتی ہے۔ اس ليے اُنہيں ديواليے سے بچانے کے ليے حکومتيں عوامی ٹيکس کا پيسہ بے دريغ خرچ کرتی ہيں۔

https://p.dw.com/p/16j9q
تصویر: dapd

ناقدين کا کہنا ہے کہ دوسرے کاروباری اداروں کی طرح بينکوں کو بھی اپنے مالی خسارے کا بوجھ خود برداشت کرنا چاہيے اور اُن کے خسارے کا بوجھ ٹيکس دينے والے عوام پر نہيں ڈالا جانا چاہيے کيونکہ بينک کاروبار ميں منافع تو خود کماتے ہيں اور جب خسارہ ہوتا ہے تو عوامی ٹيکس کی رقوم کا مطالبہ کرتے اور اپنی اہميت جتاتے ہيں کہ اگر وہ ديواليہ ہو گئے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا

جرمنی کے فلسفی شاعر گوئٹے نے ايک بار لکھا تھا: ’جن عفريتوں کو ميں نے پکارا تھا، اب ميں اُن سے پيچھا نہيں چھڑا سکتا۔‘ سياست نے بھی پچھلے 20 برسوں ميں مالياتی منڈيوں کے ضوابط کو نرم کرکے جن عفريتوں کو پکارا ہے وہ اب ان سے چھٹکارا حاصل نہيں کر پا رہی ہے۔

مالياتی ادارے بہت زيادہ طاقتور ہو چکے ہيں۔ دنيا کے دس سب سے بڑے بينکوں کا کاروبار عالمی اقتصادی کارکردگی کے 40 فيصد پر محيط ہے۔ ڈوئچے بينک کا بيلنس پچھلے سال کے آخر ميں جرمنی کی مجموعی قومی پيداوار کا 84 فيصد تھا۔ اس کا صرف پانچواں حصہ قرضے دينے کے روايتی بينک کے کاروبار سے متعلق تھا۔ اس بينک کی تجارت ميں سب سے زيادہ حصہ انوسٹمنٹ بينکنگ کا تھا، جس ميں پُر خطر شرطيں لگانے کا کاروبار بھی شامل تھا۔

بينک قرضے دينے يا دوسرا کاروبار کرنے کے ليے پيسہ دوسرے قرضے دينے والے اداروں سے حاصل کرتے ہيں۔ ڈوئچے بينک کا اصل زر ايک لمبے عرصے تک کُل کاروبار کا صرف دو فيصد رہا۔اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر تجارتی حجم کے دوفيصد کا خسارہ ہوتا تو يہ بينک ديواليہ ہو جاتا۔ جرمن معيشت اور عالمی معيشت پر اس کے جو اثرات پڑتے اُن کا اندازہ نہيں لگايا جا سکتا۔

امريکی بينک جے پی مورگن
امريکی بينک جے پی مورگنتصویر: AP

اس ليے امريکی بينکوں سٹی گروپ اور جے پی مورگن چيز اور برٹش بينک ايچ ايس بی سی سميت ڈوئچے بينک کو بين الاقوامی نگران مالياتی استحکام کونسل نے سب سے زيادہ خطرے کے خانے ميں جگہ دی۔ ان عالمی بينکوں کو 2019 تک اپنے اصل زر کو 9.5 فيصد تک بڑھانا ہے۔آکسفورڈ يونيورسٹی کے پروفيسر کليمنس فيوسٹ اسے بھی ناکافی سمجھتے ہيں۔

بہت بڑے بينکوں کو too big to fall سمجھا جاتا ہے، يعنی يہ کہ حکومتيں انہيں گرنے نہيں دے سکتيں اور اس کے ليے اُن پرعوامی ٹيکس کی رقوم خرچ کرتی ہيں کيونکہ يہ سمجھا جاتا ہے کہ ايسے کسی بينک کے ديواليہ ہونے کے نتيجے ميں عالمی اقتصادی نظام بکھر جائے گا۔ ليکن اس طرح منڈی کی آزاد اقتصاديت کا يہ اہم اصول نظرانداز کر ديا جاتا ہے کہ ہر کمپنی اپنے مول ليے ہوئے خطرے کی خود ذمہ دار ہوتی ہے۔ مالياتی ماہر ماکس اوٹے اسے ’بينکوں اور امير ترين افراد کی مدد کا سوشلزم‘ کہتے ہيں کيونکہ منافع تو افراد کے ہاتھ آتا ہے اور نقصانات کو عوام پر ڈال ديا جاتا ہے۔

کولون يونيورسٹی کے اقتصادی سياست کے انسٹيٹيوٹ کے ڈائرکٹر ايک ہوف نے کہا: ’’بينکوں کو چھوٹی اکائيوں ميں تقسيم کرنا ہوگا تاکہ وہ حکومتوں کو بليک ميل نہ کر سکيں۔ کيونکہ حکومت کو بليک ميل کر سکنے والا بينک پر کشش مگر پُر خطر کاروبار سے بچنے کی کوشش ہی نہيں کرتا۔‘‘

ايچ ايس بی سی بينک لندن
ايچ ايس بی سی بينک لندنتصویر: dapd

مالياتی ماہر ماکس اوٹو نے کہا کہ سياستدان صورتحال پر قابو نہيں پا سکتے کيونکہ وہ مکمل طور پر امير ترين افراد اور مالياتی لابی کے ہاتھ ميں ہيں۔ اہم سياستدان اپنے سياسی کيريئر کے خاتمے کے بعد فوراً مالياتی شعبے ميں اونچے عہدے حاصل کر ليتے ہيں۔ مثلاً جرمنی کے مالياتی سکريٹری مملکت کوخ ويزر نے اپنی ملازمت چھوڑنے کے تين ماہ بعد ہی ڈوئچے بينک کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کے رکن کا منصب حاصل کر ليا۔ ناقدين سياست اور مالياتی شعبے کے اس گہرے ملاپ پر کڑی تنقيد کرتے ہيں۔