1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماسکو میں شامی بحران کے حل کی ایک اور کوشش کا آغاز

کشور مصطفیٰ6 اپریل 2015

جنگ سے تباہ حال عرب ریاست شام کے تنازعے کے حل کے لیے روس کی میزبانی میں مذاکراتی عمل شروع ہوا ہے۔ ماسکو میں آج سے شروع ہونے والے چار روزہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت روشن نظر نہیں آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F3Hi
تصویر: Reuters

روسی حکومت نے ان مذاکرت میں بات چیت کی غرض سے شامی حکومت اور آپوزیشن دونوں کو مدعو کیا تھا تاہم شام کے حزب اختلاف کے مرکزی گروپ نے شرکت سے انکار کر کہ امن و مصالحت کی اس کوشش کو ابتدا سے ہی پیچیدہ کر دیا۔ پیر سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں شامل ہونے والے مندوبین چار روزہ مذاکرات سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے دوران شام کی خانہ جنگی کے سبب پیدا ہونے والے انسانی مسائل کے حل پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی اور چار سال سے جاری خانہ جنگی کے شکار افراد کے لیے حالات بہتر ہو سکیں گے۔ شام کا بحران اب تک دولاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن چُکا ہے۔

ترک دارالحکومت استنبول میں قائم مغرب نواز شام کے قومی اتحاد نے روس میں ہونے والے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اس صورت میں اس بات چیت میں شریک ہوں گے کہ مذاکرات روس کے اتحادی شامی صدر بشار الاسد کی برطرفی کا سبب بنیں۔

Russland Syrien Treffen Putin Lawrow Walid al-Moualem
گزشتہ برس بھی روس نے شام کے بحران کے خاتمے کے لیے ایک کانفرنس اپنے ہاں منعقد کی تھیتصویر: Reuters/Mihail Metzel/RIA Novosti/Kremlin

اُدھر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ماسکو کو اب بھی امید ہے کہ جینیوا میں 2012 ء میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں طے پائے جانے والے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے گا اور یہ کہ محض ایک اپوزیشن گروپ کی غیر حاضری کسی ٹھوس نتیجے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ لاورورف نے مڈگاسکر کے وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک بیان میں کہا،" شام میں اب تک اتنا زیادہ خون بہایا جا چُکا ہے کہ اب کسی کے کہنے پر کسی ایک شامی اپوزیشن گروپ کو اتنی زیادہ اہمیت دی جائے کہ اُس کی غیر حاضری سے مذاکرات کے نتائج نہیں نکل سکتے" ۔

2012 ء میں جینیوا منعقدہ شام کانفرنس میں واشنگٹن، ماسکو کی طرف سے منظور شدہ ایک مسودے میں باہمی رضامندی سے ایک عبوری حکومت کے قیام کی بات کی گئی تھی۔

روسی خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس کے مطابق آج سے ماسکو میں شروع ہونے والے اجلاس میں شامی وفد کی قیادت اقوام متحدہ میں متعین شامی سفیر بشار جعفری کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں شامل مندوبین کی فہرست ویسی ہی ہے جیسی کہ جنوری میں ماسکو میں ہونے والے مشاورتی دور میں تھی۔ اُس کے بھی کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔

Russsische Staatsbürger werden aus Syrien ausgeflogen
جنوری دو ہزار تیرہ میں روس نے شام سے اپنے باشندے بلا لیے تھےتصویر: Reuters

اُدھر بیروت سے ملنے والی خبروں کے مطابق شامی حکومت کے وفادار اور حامی عسکریت پسندوں اور جنگجوؤں نے اپنے ایک کمانڈر کے عوض 25 خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا ہے جو اُن کے قبضے میں تھے۔ اس عمل کو باغیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ایک انوکھی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائیٹس نے کہا ہے کہ شام میں باغیوں نے ایک سال قبل شمالی شامی صوبے حلب کے شیعہ آبادی والے شہروں سے 10 بچوں اور 15 خواتین کو اغوا کر لیا تھا۔ ان کی رہائی عسکریت پسند جیش المجاہدین اور حکومت نواز ملیشیا کے مابین کُرد جنگجوؤں کی ثالثی میں ہونی والی ایک ڈیل کے تحت عمل میں آئی ہے۔

اس واقع کی تصدیق تاہم شامی سرکاری میڈیا نے نہیں کی ہے نہ ہی حکومتی اہلکاروں نے اس خبر پر کوئی فوری تبصرہ کیا ہے۔