1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارک بلوخ اور آنالز اِسکول

16 جون 2024

پروفیسر لوسیاں فیور اور مارک بلوخ نے آنالز کے نام سے نئے مکتبہ تاریخ کی بنیاد رکھی تھی۔ آنالز اسکول کے مورخوں نے تاریخ کے مضمون کو ایک نئی زندگی دی اور اُن موضوعات پر لکھا، جنہیں اب تک مورخ ہی نظرانداز کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4h5mo
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

تاریخ کا مضمون وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ ماضی کی نئی تشریح ہوتی رہی ہے۔ لیکن مورخوں کی اکثریت نے تاریخ کے مضمون کو زیادہ تر سیاسی موضوعات تک رکھا۔ حکمرانوں کے دربار، جنگیں اور ڈپلومیسی تاریخ کے موضوعات رہے تھے۔

آنالز اسکول کے مورخوں نے تاریخ نویسی کو سیاست کی گرفت سے نکالا اور سوشل ہسٹری پر توجہ دی۔ اُنہوں نے تاریخ کے ماخذوں کو بھی تبدیل کیا اور سماجی علوم کو شامل کر کے عمرانیات، علمِ بشریات، نفسیات، ادب، آرٹ اور تعمیرات۔ ان سب میں جو نئے اَفکار آ رہے تھے اُن سے تاریخ نویسی میں مدد لی۔ اس سلسلے میں ٹوٹل ہسٹری کی اصطلاح کو استعمال کیا، اور یہ بھی کہا کہ کوئی موضوع تاریخ کی ذَد سے باہر نہیں۔

1929ء میں اسٹراس برگ یونیورسٹی کے دو تاریخ کے پروفیسروں نے جن میں لوسیاں فیور اور مارک بلوخ شامل تھے۔ انہوں نے ایک ریسرچ جرنل شائع کرنا شروع کیا جس نے یورپ کی تاریخ نویسی کو بدل ڈالا۔

لوسیاں فیور نے سب سے پہلے عام لوگوں کی تاریخ کے بارے میں لکھا تھا۔ اپنی ایک کتاب میں اس نے سولہویں صدی کے کسانوں کی زندگی پر لکھا ہے۔ اس میں اُن کے عقائد، اُن کی سماجی زندگی ، حالات کے بارے میں اُن کی رائے اور روزمرّہ معمول جس کے تحت وہ اپنا وقت گزارتے تھے۔ دیہی زندگی کے بارے میں یہ پہلی تاریخ تھی جس میں عام کسانوں کو اہمیت دی گئی، اور اُن کی سادہ زندگی کو تاریخ کا حصہ بنایا گیا۔

مارک بلوخ نے بھی تاریخ نویسی میں اُن پہلوؤں کی طرف توجہ دی جنہیں مورخ غیر اہم سمجھتے تھے۔ جیسے افواہیں، توہمات، اعتقادات اور غیرفطری عمل پر اعتبار۔ چنانچہ اس نے رائل ٹچ نامی کتاب لکھی۔ لوگوں میں یہ آٹھویں صدی عیسوی سے پرانا عقیدہ تھا کہ اگر وہ کسی خاص بیماری میں بادشاہ کو چھُو لیں تو وہ صحتیاب ہو جائیں گے۔ لہٰذا دستور یہ تھا کہ لوگ لائن میں کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے جسم کو چھُوتے ہوئے جاتے تھے۔ ہمارے پاس معلومات تو نہیں ہیں کہ لوگ صحتمند ہوتے تھے یا نہیں لیکن بادشاہ جو ایک معجزاتی کردار ادا کرتا تھا۔ اُس کی وجہ سے لوگ اُس کے وفادار ہوتے تھے۔ مارک بلوخ کی دلیل یہ ہے کہ جب عام لوگوں میں شعُور اور فکر کی کمی ہو تو وہ توہمات کے ذریعے اپنا علاج کراتے ہیں۔

مارخ بلوخ سوسائٹی میں ٹیکنالوجی کی ایجادات کو بھی اہم سمجھتا تھا۔ اِس نے پَن چکّی (Water Mill) پر بھی ایک کتاب لکھی ہے، کہ اس کی ایجاد نے عام لوگوں کی زندگی کو کیسے تبدیل کیا۔ خاص طور سے گھریلو خواتین کو جو آٹا پیسنے کی مُشقّت سے بچ گئیں۔ مارک بلوخ نے ''ہسٹورنیز کرافٹ‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں مورخ کے لیے اُصول و ضوابط بتائے ہیں۔ لیکن اُس کا سب سے اہم کام فیوڈل سوسائٹی ہے۔

مارک بلوخ اپنی عملی زندگی میں باعمل انسان تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں یہ فرانسیسی فوج میں شریک ہوا لیکن جب جنگ میں فرانس کو شکِست ہوئی اور جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا تو اُس کے خلاف مختلف مُزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں۔ مارک بلوخ ساربون یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر تھا۔ یہ پیرس چھوڑ کر مُزاحمتی تحریک میں شامل ہوا۔ جرمنی کی خفیہ ایجنسی نے مارک بلوخ اور دوسرے کارکنوں کو گرفتار کر کے تشویش کے دوران اذیت دی اور پھر 26 اراکین کو ایک کھیت میں لے جا کر مشین گَن سے بھُون دیا۔ اِن میں مارک بلوخ بھی شامل تھا۔

لوسیاں فیور کی وفات 1956ء میں ہوئی اس کے بعد انالز اسکول کی سربراہی فرنانڈ براؤڈل نے کی۔ ان کا Ph.D کا تھیسیس "Mediterranean at the age of Phillip-II” اِس کی 'معرکۃ العراء‘ کتاب ہے۔ اس میں انہو ں نے بحیرِہ روم کے اندر واقع جزیروں، اُس کے ساحل کی آبادیوں، علاقے کی آب و ہوا، رسم و رواج پر تحقیق کی ہے۔ کتاب کا پہلا ڈرافٹ اس نے اُس وقت لکھا تھا۔ جب دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ جرمنی کی قید میں تھے، اور پورا ڈرافٹ اپنی یادداشت کی بنیاد پر لکھا تھا۔

براؤڈل (Braudel)  کا اصل کام سرمایہ داری اور تہذیب ہے۔ جس کی تین جلدیں ہیں۔ براؤڈل نے تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم  کیا ۔ پہلا دَور طویل دورانیہ کا ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہوتا ہے۔ اس دور میں تبدیلی کا عمل بہت آہستہ ہوتا ہے۔ دوسرا درمیانی یا جیالوجیکل عہد ہے اور تیسرا واقعات کی تاریخ۔ عام طور سے مورخ اِن دو اَدوار کو چھوڑ کر واقعات کی تاریخ لکھتے ہیں۔

براؤڈل کی وفات کے بعد بھی آنالز اسکول کے مورخین نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور انسانی جذبات کی تاریخ سے لے کر نچلے  طبقے کے لوگوں کے کلچر کو اپنا موضوع بنا کر تاریخ نویسی میں اضافے کیے۔

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍