1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کے موضوع پر عالمی ادبی شاہکار

25 جولائی 2021

ممتاز ناول نگار امیتابھ گھوش کی کہانیاں فطرت کے پیچیدہ کردار کے گرد گھومتی ہیں۔ بنگلہ دیشی پس منظر رکھنے والے گھوش کا گھر تو نیویارک میں ہے لیکن دل اب بھی سندربن کے جنگلوں میں بھٹکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3xsLa
Amitav Ghosh indischer Autor
تصویر: DW/B. Knight

 امیتابھ گھوش کی مشہور کتابوں میں سن  دو ہزار میں شیشے کا محل یا 'دا گلاس پیلس‘، سن دو ہزار چار میں بھوکی موجیں یا 'دا ہنگری ٹائیڈ‘، سن دو ہزار آٹھ میں گلِ لالہ کا سمندر یا 'سی آف پوپیز‘ شامل ہیں۔ رواں برس ان کی ایک نئی کتاب جنگل نامہ شائع ہوئی ہے۔

اس نئی کتاب میں ان کا موضوع کلائمیٹ چینج جیسے حساس معاملے سے جڑا ہے اور پھر اس کا بھی خاص تعلق سندربن  کے جنگلات سے ہے، جسے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ سندربن کے جنگلات بنگال کے شیروں یا ٹائیگرز کے علاوہ نایاب جنگلی جڑی بوٹیوں اور پودوں کا گھر بھی ہیں۔

Deutschland | Flutkatastrophe NRW - Bundeswehrfahrzeuge in Erftstadt
جرمنی میں رواں برس جولائی میں آنے والے شدید سیلاب کو گلوبل وارمنگ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہےتصویر: David Young/dpa/picture alliance

سندربن میں بھٹکتا دل

اس جنگل سے محبت کا ہی اثر ہے کہ امیتابھ گھوش کو شدت کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زمین پر پڑنے والے اثرات نے پریشان اور کسی حد تک بے چین کر رکھا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے قدرتی آفات میں اضافہ غیر معمولی ہو چکا ہے اور ان کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ممالک کو موسلا دھار بارشوں اور شدید سیلابوں کا سامنا ہے۔

ماحولیاتی بداخلاقیوں کے بغیر قربانی بھی بھلا کیا قربانی

جرمنی میں آنے والے حالیہ سیلاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے اور دوسری جانب غریب ملکوں کو بھی بارشوں اور سیلابوں کا سامنا رہتا ہے۔ جرمنی میں سیلاب کو بھی کلائمیٹ چینج کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں ایک حقیقت

امیتابھ گھوش کا خیال ہے کہ لوگ ابھی تک ماحولیاتی تبدیلیوں کو امیر اقوام کا ڈھکوسلا خیال کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام بات ہے کہ بہترین بنیادی ڈھانچہ اور امارت سے لوگ قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن جرمنی کے حالیہ سیلاب سے اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔

Indien Schriftsteller Amitav Ghosh
امیتابھ گھوش کی نئی کتاب کا موضوع کلائمیٹ چینج سے جڑا ہے اور پھر اس کا بھی خاص تعلق سندربن  کے جنگلات سے ہےتصویر: picture-alliance/Eidon/MAXPPP/dpa/D. Giagnori

انہوں نے اس تناظر میں شمالی کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ کا حوالہ بھی دیا کہ ایسی قدرتی آفت دنیا کے ایک امیر ملک میں بھی دیکھی گئی۔ گھوش کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں صرف انسانی بستیوں کو تاراج نہیں کر رہی بلکہ انسانوں کو معاشی اعتبار سے بھی کمزور کر کے ان میں بھوک اور تنگی پیدا کر رہی ہیں۔ اس کی مثال میں انہوں نے واضح کیا کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے انگوروں کے باغات میں شراب کشید کرنے والے ایک بڑے تاجر کو دھوئیں اور گرد و غبار سے شدید پریشانی لاحق ہے کیونکہ انگوروں کے خوشے مناسب انداز میں شاخوں پر پک ہی نہیں پا رہے۔

جرمنی میں سیلاب اب تک 133 افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکا ہے

سائی فائی کے علاوہ کلائی فائی بھی

حالیہ عشروں میں کئی ناولوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی قدرتی آفتوں کو پرزور انداز میں موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں سن انیس سو اٹھاسی میں شائع ہونے والا جارج ٹرنر کا ناول سمندر اور گرمی یا 'دا سی اینڈ سمر‘ کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سن دو ہزار بارہ میں چھپنے والا باربرا کنگ سالوور کا ناول 'فلائیٹ بی ہیویئر‘، سن دو ہزار پندرہ میں جیمز بریڈلی کا 'کلیڈ‘ اور سن دو ہزار اٹھارہ میں رچرڈ پاورز کا 'دا اوور سٹوری‘ خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس سلسلے میں سن دو ہزار انیس میں گھوش کے ناول 'گن آئیلینڈ‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

USA I Waldbrände in Kalifornien
ماحولیاتی تبدیلیوں سے امریکا جیسا امیر ملک بھی بچا نہیں، اس کی ریاست کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ کو بھی اس تبدیلی سے جوڑا جاتا ہےتصویر: Jungho Kim/ZUMA/picture alliance

اس طرز کے فکشن کو ادب کی ایک نئی صنف قرار دیا جا رہا ہے اور اسی لیے اسے 'ایکو فکشن‘ (ایکولوجیکل فکشن) کہا جاتا ہے۔ یہ نئی صنف 'سائی فائی‘ (سائنس فکشن) کی طرح کلائی فائی (کلائمیٹ فکشن) کے طور پر بھی مقبول ہو رہی ہے۔

تاریخی عمارات کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے بیکٹیریا

اس تبدیلی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ادیب ماحولیاتی مسائل کو اپنے ناولوں میں سمونے میں ہچکچاہٹ سے دوچار نہیں ہیں۔ ایسے فکشن سے گھوش  کسی حد تک مطمئن نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسے ناولوں میں ایک حقیقت کو کسی حد تک غیرحقیقی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، جو پڑھنے والے کو ایک خیالی دنیا میں لے جاتا ہے۔ گھوش کے نزدیک ماحولیاتی تبدیلیوں کو غیر حقیقی انداز میں ناول یا فکشن میں بیان کرنا اصل مسئلے سے نظریں چرانا اور حقائق سے انکار قرار دیا جا سکتا ہے۔

مانسی گوپالا کرشنن (ع ح/ اا)