ماحولیاتی تبدیلیوں پر لکھے گئے شاہکار ناول
سائنس فکش کو سائی فائی کہا جاتا ہے۔ کلائمیٹ چینج پر لکھے گیا فکش اب کلائی فائی کہلانے لگا ہے۔ کلائی فائی کی اصطلاح پہلی مرتبہ امریکی صحافی ڈان بلوم نے سن 2007 میں استعمال کی تھی۔
’کچھ نیا سورج تلے‘
الیگزینڈرا کلیمان کا ناول کچھ نیا سورج تلے یا انگریزی میں Something New Under the Sun رواں برس ہی شائع ہوا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار جب اپنے ایک ناول پر فلم بنائے جانے پر ہالی ووڈ جاتا ہے تو اسے لاس اینجلس شہر میں قیام کے دوران سازشی نظریات، سرمایہ دارانہ نظام اور کرپشن کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے گھمبیر یعنی قحط اور جنگلاتی آ گ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’بلندگھر‘
سن 2021 ہی میں جیسی گرین گراس کا ناول The High House شائع ہوا ہے۔ اس میں ایک سائنس دان اور اس کی والدہ فرانسسکا کو محسوس ہوتا ہے کہ شدید سیلاب ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ اس سوچ کے بعد وہ تعطیلات گزارنے والے اپنے مکان کو ماحول دوست بنا دیتی ہیں۔ ان کی کوششوں سے لوگ نئی طرز کی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ناول میں اہم لوگوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا معاملہ اور ترجیحات بدلنا ہیں۔
’نیا ویرانہ‘
سن 2020 میں اس ناول The New Wilderness کو بُکرز پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اس میں ایک لڑکی کی کہانی ہے جو شہر کی سموگ اور آلودگی سے بیمار ہے۔ اس کی ماں صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ان رضاکاروں میں شامل ہو جاتی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہوتے ہیں۔ انجام کار ان تمام افراد کی کوششوں سے لوگ پھر سے متروک خانہ بدوشوں کا طرزِ حیات اپنا لیتے ہیں۔
’دیوار‘
جان لنکیسٹر کا ناول The Wall سن 2019 میں شائع ہوا۔ اس میں ایک جزیرہ ریاست کی قوم اپنی ساحلی سرحد پر ایک بلند دیوار تعمیر کرتی ہے۔ اس میں ایک کردار جوزف کیوانا کا ہے اور اس کا مشن اپنے حصے کی دیوار کی حفاظت ہے۔ لوگ سمندر کی شوریدہ سری سے سے ہونے والی ہلاکتوں سے گھبرا کر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔
’شہد کی مکھیوں کی تاریخ‘
ناروے کی خاتون ادیبہ مایا لُنڈے کا سوچنے پر مجبور کر دینے والا ناول ’شہد کی مکھیوں کی تاریخ‘ سن 2017 میں شائع ہوا تھا اور اس کا پلاٹ تین مختلف ادوار کے تین مختلف ملکوں پر پھیلا ہے۔ ماضی سے مستقبل کے سفر کے ادوار اور ممالک سن 1852 کا انگلستان، سن 2007 کا امریکا اور سن 2098 کا چین ہیں اور اس کا موضوع انسان اور ماحول ہے۔مایا لُندے کا شمار یورپ کے بیسٹ سیلر ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔
’سوان بُک‘
الیکسِس رائٹ کا ناول آسٹریلیا کے مستقبل سے متعلق ہے۔ رائٹ کا تعلق بھی آسٹریلیا سے ہے۔ اس ناول میں ان کے ملک کو کلائمیٹ چینج سے ہونے والی تباہیوں اور مصائب کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ناول نگار اپنی کہانی میں ایک ایسی بستی کا تذکرہ بھی تفصیل سے کرتی ہیں جو قدرتی ماحول میں رہتی ہے اور اپنے رہن سہن سے وہ فطرت سے بھی دوستانہ رویہ اپنائے رکھنے کو فوقیت دیتی ہے۔ یہ ناول سن 2013 میں شائع ہوا تھا۔
’پانی کی یاداشت‘
ایمی ایٹرانٹا کا مقبول ناول Memory of Water سن 2012 میں شائع ہوا تھا۔ فن لینڈ کی مصنفہ نے اپنے ناول میں سب سے زیادہ فوکس کرہ ارض کی سب سے قیمتی شے پانی پر رکھا ہے، جس پر مستقبل میں لڑائیاں بھی لڑی جانی ہیں۔ اس ناول میں قیمتی شے یعنی پانی سے جڑے جرائم کا بھی تذکرہ ہے۔ سب سے اہم بات پانی کے بارے میں جو بیان کی گئی ہے وہ اس کی ممکنہ قلت کے پیدا ہونے کے بارے میں ہے۔
’پرواز کا سلیقہ‘
باربرا کنگ سالور ایک ماہر حیاتیات بھی ہیں۔ ان کا ایک ناول Flight Behaviour خاصا اہم خیال کیا گیا ہے۔ یہ سن 2012 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناول میں سالور نے تفصیل سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا احوال بیان کرتے ہوئے بڑی جسامت کی تتلیوں کے معدوم ہونے کو بیان کیا ہے۔ ناول میں تحقیق کا سلسلہ بھی بیان کیا گیا اور اس کے مطابق شدید ہوتا موسم ان تتلیوں کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔
’سنگی دیوتا‘
جینیٹ ونٹرسن کا ناول The Stone Gods سن 2007 میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس میں ایک کشف کے بعد روبو سیپیئن نسل کا ایک فرد ایک انسانی لڑکی سے محبت کا تعلق قائم کرتا ہے۔ ناول میں انسانوں کا اپنی غلطیوں سے ایک مرتبہ پھر سبق نا سیکھنے کو بیان کیا گیا ہے۔ ناول میں حکومتوں کا کنٹرول کارپوریٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر ہے اور ان کی وجہ سے ظالمانہ جنگیں اور انسانیت مخالف ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
’بھوکی موجیں‘
بنگالی نژاد امریکی ناول نگار امیتابھ گھوش کا ناول The Hungry Tide سن 2004 میں شائع ہوا تھا۔ اس کا موضوع سندر بن کے جنگلات اور وہاں کے ٹائیگرز سے جڑے تنازعات پر ہے۔ اس ناول میں شیروں پر حملے، سنگین سیلابوں، مون سون کی بارشوں اور انسانی بستیوں کے انخلا کو سمویا گیا ہے۔ اس ناول میں بنگالیوں کی سن 1978-79 میں موریچی جھانپی کے قتل عام کا حوالہ بھی ہے۔
سمندر اور گرمی
جارج ٹرنر کے اس ناول کو کلائی فائی کا سرخیل قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرنر کا ناول The Sea and Summer سن 1987 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں درجہ حرارت بڑھنے سے سمندروں کی سطح بلند ہونے اور ان سے پیدا نقصانات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس ناول کو بلند عمارتوں کے شہر میلبورن کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اور ناول کا زمانہ سن 2030ہے۔ جورج ٹرنر ایک آسٹریلوی ادیب ہیں۔