1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پرانی نسل کا ناسٹلجیا، موجودہ نسل کے لیے انسپریشن‘

29 جون 2024

نیو یارک کا ٹائمز اسکوائر اپنے ڈیجیٹل بل بورڈز کے لیے مشہور ہے۔ حال ہی میں صحرائے تھر سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی لوک گلوکارہ مائی دھائی کی تصویر وہاں نظر آئی جس نے ان کے پرستاروں کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔

https://p.dw.com/p/4hXCG
Mai Dhai, Sängerin
تصویر: Farooq Azam

مائی دھائی کو اسپاٹیفائی نے اپنے سلسلے EQUAL کے لیے رواں ماہ اعزازی شخصیت نامزد کیا ہے جس کا مقصد خواتین گلوکاروں کے لیے سنگیت کے بہتر مواقع تلاش کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔

ڈھاٹکی اور مارواڑی زبان میں گانے والی انتہائی سادہ شخصیت کی مالک مائی دھائی صحرائے تھر سے نیویارک ٹائمز اسکوائر تک کیسے پہنچیں؟  جانیے ڈی ڈبلیو اردو کی خصوصی رپورٹ میں۔

شادی بیاہ میں گانے والی منگہار قبیلے کی 'ڈھول والی مائی‘

مائی دھائی کا تعلق راجستھان کے منگہار قبیلے سے ہے جو روایتی طور پر صدیوں سے گانے بجانے کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انسانوں کی خود ساختہ تقسیم میں انتہائی معمولی درجے کا یہ قبیلہ (منگہار کا مطلب ہے 'مانگنے والا‘) صحرا کی زندگی اور وہاں سے جنم لینے والے قصے کہانیوں کا امین رہا جنہیں یہ شادی بیاہ، بچے کی پیدائش یا تہواروں کے موقع پر گا کر سناتے۔ یہی ان کا شوق تھا اور یہی پیٹ پالنے کا ذریعہ جو آج بھی جاری ہے۔

مائی دھائی کو یاد نہیں کہ وہ 1947ء کے بعد راجستھان سے کب ہجرت کر کے تھرپہنچ کر وہاں آباد ہوئیں۔ ایک انٹرویو میں اپنے بچپن اور ماں کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ”میں اپنی والدہ کے ہمراہ 'اپنے تھر میں‘ مقامی شادیوں میں جایا کرتی تھی جہاں میری والدہ گیت گاتی تھیں، اس طرح وہاں کے تمام گیت اور دھنیں میرے ذہن میں نقش ہو گئیں۔"

ملیے آئی آئی کے گلوکاروں سے

خیال رہے مائی دھائی کے بیشتر گیت ڈھاٹکی زبان میں ہیں جو سندھی اور راجستھانی کے مختلف لہجوں کے ملاپ سے وجود میں آئی۔  ڈھاٹکی کے بولنے والوں کی کل تعداد محض دو لاکھ کے قریب ہے جن میں ساٹھ فیصد عمرکوٹ اور تھرپارکر میں آباد ہیں جبکہ باقی چالیس فیصد راجستھان میں رہتے ہیں۔

 کیفے تھر کے مالک اور فوک کلچر پر گہری نظر رکھنے والے مِٹھی کے رہائشی پیارو شیوانی ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ستر کی دہائی میں ڈھاٹکی زبان کی تین چار آڈیو کیسٹس آئیں جن پر گھونگھٹ نکالے ایک خاتون کی تصاویر تھیں اور ساتھ نام کی جگہ 'ڈھول والی مائی‘ لکھا تھا۔ یہ مائی دھائی کی شہرت کا ابتدائی زمانہ تھا۔"

مائی دھائی اپنے موسیقاروں کے گروپ کے ساتھ
مائی دھائی اپنے موسیقاروں کے گروپ کے ساتھتصویر: Farooq Azam

عمرکوٹ کی درگاہ سے حیدرآباد اور ریڈیو سندھ کا سفر

 ممکن تھا کہ صحرائے تھر کا یہ پھول محض اپنے گرد و پیش کو معطر کرتا اور وہیں تحلیل ہو جاتا۔ وہ اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکی تھیں جب عمرکوٹ کے سیاستدان اور کلچرل منسٹر سردار شاہ انہیں اپنے ساتھ حیدرآباد لے گئے۔

پیارو شیوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عمر کوٹ میں سردار شاہ اور ان کے اجداد کی مشہور درگاہ ہے جہاں مائی دھائی اکثر گانے کے لیے آتیں تھیں۔ سردار شاہ انہیں اپنے ساتھ حیدرآباد جیسے بڑے شہر لے گئے۔"

 مائی دھائی اپنے اکثر انٹرویوز میں ذکر کرتی ہیں کہ انہیں بڑے سٹیج پر متعارف کروانے میں سردار شاہ کا بنیادی کردار ہے جنہوں نے بطور کلچر منسٹر انہوں پروموٹ کیا۔

ایک  انٹرویو میں وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں قبیلے نے مخالفت کی لیکن کیونکہ سردار شاہ لے گئے تھے اس لیے سب نے اسے قبول کر لیا۔

 اب ایک طرف مائی دھائی سندھ ریڈیو کے لیے گا رہی تھیں تو دوسری طرف انہیں منسٹری آف کلچر کے توسط سے سندھ کے مختلف شہروں میں پرفارم کرنے کا موقع بھی ملنے لگا۔

انہیں ابتدائی طور پر سراہنے والوں میں ایک اہم نام حسن درس کا بھی ہے جو سندھی زبان کے معروف شاعر ہیں۔

’گلوکارہ بننے کے لیے والد کی مرضی کے خلاف گئی‘

کوک اسٹوڈیو اور دیس پردیس میں پذیرائی

مائی دھائی کو صحیح معنوں میں ملکی سطح پر اسٹار کا درجہ 2015 ء  میں کوک اسٹوڈیو  کے گیت 'کدی آؤنی‘ سے ملا جو انہوں نے عاطف اسلم کے ساتھ مل کر گایا تھا۔ یہ گیت اب تک محض یوٹیوب پر دو کروڑ 10 لاکھ سے زائد مرتبہ سنا جا چکا ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے ساتھ ان کا دوسرا گیت تھا 'انکھلی پھیکوکی‘ جو اتنا زیادہ مشہور نہ ہو سکا لیکن مائی دھائی کا وقت بدل چکا تھا۔ وہ راتوں رات پورے ملک میں مشہور ہو گئیں۔

مائی دھائی اور لوک موسیقی سے تعلق رکھنے والی  چند دیگر خواتین
لوک ورثہ اسلام آباد میں مزین ایک پوسٹر پر مائی دھائی سمیت لوک موسیقی سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی چند مشہور خواتین کی تصاویرتصویر: Farooq Azam

ان کے لیے زندگی کیسے تبدیل ہوئی؟ ایک انٹرویو میں وہ بتاتی ہیں، ”تھر میں ہم منگہاروں کو بن بلائے لوگ سمجھا جاتا تھا لیکن اب لوگ پہلے مجھے بلاتے ہیں، پھر میں وہاں جاتی ہوں، کسی تھری کے لیے یہ گزربسر کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔"

2013 ء میں انہوں نے پہلی مرتبہ امریکہ کا دورہ کیا۔ 2015 ء میں وہ دوبارہ امریکہ گئیں اور ایک نہیں تین مختلف مقامات پر پرفارم کیا جسے بے حد پسند کیا گیا۔ وہ متعدد مرتبہ دبئی، لاہور اور اسلام آباد میں اپنے فن کا جادو جگا چکی ہیں۔

 ایک چھوٹے گاؤں سے آ کر بڑے شہروں اور بیرون ملک جا کر گانا مائی دھائی کے لیے آسان نہ تھا۔ ایک انٹرویو میں وہ بتاتی ہیں، ”میری برادری کے قریب ہر شخص نے میرے عوامی سطح پر گانے کی مخالفت کی، اگر میں پہلے ہی عوامی سطح پر گانا شروع کر دیتی تو کوئی میری بیٹیوں سے شادی نہیں کرتا اور یہی وجہ تھی کہ میں تھر میں پرفارم کرتے وقت گھونگھٹ نکالا کرتی تھی۔"

مائی دھائی کی گائیکی میں ایسا کیا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے؟

سادگی میں کس بلا کا حسن اور کشش ہوتی ہے یہ جاننے کے لیے کسی بھی زبان کی لوک موسیقی  سن لیجیے، آپ غیر محسوس طریقے سے اپنا آپ اس کے سپرد کر کے دل کی باگیں ڈھیلی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس کی ایک بہترین مثال مائی دھائی ہیں۔

شادیوں میں ڈھول شہنائی بجانے کا فن دم توڑنے لگا

وہ گھونگھٹ نکال کر گاتی ہیں کہ ان کے ہاں یہی ریت ہے، ایسا لگتا ہے جیسے درختوں کے جھنڈ میں کوئی ندی بہہ رہی ہو۔

پیارو شیوانی کہتے ہیں، ”وہ ایک ایسی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں جس سے ہماری شناسائی کم اور تجسس زیادہ ہے۔ انہیں سنتے اور دیکھتے ہوئے ہم خود کو اس تہذیب کا فرد سمجھتے ہیں جو آہستہ آہستہ مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ سوشل میڈیا کا دور دیکھ سکیں اور اس طرح زندگی کا ایک منفرد رنگ مٹنے سے پہلے محفوظ ہو گیا۔"

یوٹیوب یا انسٹاگرام وغیرہ پر مائی دھائی کے گیتوں کے نیچے کومنٹس کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد انڈیا سے ہوتی ہیں۔ کئی نوجوان ذکر کرتے ہیں کہ گیت سنتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں یا ہمیں راج برطانیہ اور سیاست نے تقسیم کیا لیکن کلچر اور موسیقی آپس میں جُڑ رہے ہیں۔

عمر کوٹ کے رہائشی سائیں عشاق ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”چوڑیاں، مرلی اور کنواں ہماری زندگیوں میں شائد بہت کم رہ گیا ہے مگر مائی کے گیت اس سے بھرے ہیں۔ وہ پرانی نسل کا ناسٹلجیا ہیں اور موجودہ نسل کے لیے انسپریشن۔"