1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کا بحران، انسانی اسمگلروں کی چاندی

کشور مصطفیٰ23 اپریل 2015

بحران زدہ افریقی عرب ملک لیبیا بے چینی سے یورپ پہنچنے کے خواہاں تارکین وطن اور انسانی کاروبار کرنے والوں کے لیے ایک منافع بخش اورمقناطیسی کشش کے حامل ملک کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FDSO
Bildergalerie Rettung von Flüchtlingen durch deutsche Cargo schiffe im Mittelmeer
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers

لیبیا میں اس وقت کوئی ایسی مرکزی اتھارٹی موجود نہیں ہے جو اس کے ساحلوں کی طرف سے رواں تارکین وطن کے سیلاب کی روک تھام کر سکے۔ انسانوں کی اسمگلنگ کا کاروبار اس ملک میں چمک رہا ہے۔ وطن ترک کر کے یورپ کی حدود میں داخل ہونے والے انسانوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اُسی تیزی سے انسانوں کی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والوں نے اپنے معاوضے بڑھا دیے ہیں، یہاں تک کہ ’ طلب اور فراہمی‘ کے اس کاروبار سے یہ تاجر اتنا منافع کما رہے ہیں کہ یہ اب بڑی کشتیاں اور مزید بھاری اسلحہ خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ اسمگلرز خود کو اتنا قوی بنا چُکے ہیں کہ ان کا کوئی بھی بال بیکا نہیں کر سکتا۔

ایک شیطانی چکر

لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی ہر کمزور اور شکستہ کشتی ایک طرف سینکڑوں انسانوں کی جانوں کو خطرات سے دو چار کرتی ہے تو دوسری طرف انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کے لیے ہزاروں امریکی ڈالر کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔ سزا سے بے خوف اور قانونی گرفت میں نہ آنے کے یقین سے سرشار یہ اسمگلرز کُھلے عام یہ شیطانی چکر چلا رہے ہیں اور اپنے اس بزنس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔

Libyen Ausschreitungen Unruhen
لیبیا کی خانہ جنگی نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہےتصویر: Reuters

ان میں سے اکثر سوشل میڈیا نیٹ ورک ’ فیس بُک‘ کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ لوگ خاص طور سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے بحران ذدہ علاقوں میں جبر و تشدد اور غربت کے مارے پناہ کے متلاشی افراد کو سبز باغ دکھانے کے لیے فیس بُک پر اپنی سروسز کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ اسمگلرز اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر لیبیا کے طاقتور ملیشیا گروپوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیبیا کے اکثر علاقے ان گروپوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ہی سیاسی طاقت بھی ہے۔

لیبیا کا ساحلی شہر صبراتہ لیبیا سے اسمگلنگ کے ذریعے تارکین وطن کو یورپ پہنچانے والی کشتیوں کا مرکزی لانچ پوائنٹ مانا جاتا ہے۔ اس شہر کے ایک کوسٹ گارڈ آفیسر کا کہنا ہے کہ وہ ان اسمگلرز کو روکنے کے متحمل نہیں ہیں۔ ایسا کہنا بھی گویا چھوٹا مُنہ اور بڑی بات ہوگی۔ اس آفیسر نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں اُس نے سُنا کہ ایک بحری جہاز روانہ ہونے والا ہے تاہم اُس نے اس جہاز کو روکنے کے لیے اپنے کسی کارکُن کو بھیجنے سے انکار کر دیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے اس کوسٹ گارڈ آفیسر کا کہنا تھا،"یہ عمل خود کشی کے مترادف ہوگا"۔ اس آفیسر نے انسانوں کا کاروبار کرنے والے اسمگلرز کے رد عمل کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اُس کا کہنا تھا، "جب آپ ساحل سمندر پر اینٹی ایئر کرافٹ گنز سے لیس پِک اپ ٹرکس دیکھیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک خود کار رائفل ہو تو آپ کیا کریں گے؟"

Flüchtlinge vor Sizilien 2004
2004 ء میں بہت بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن اٹلی پہنچے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Lannino

یورپ اور غیر قانونی تارکین وطن

2011 ء میں لیبیا میں بھڑکنے والی شورش کی آگ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کار آمر حکمران معمر قذافی کی دیرینہ حکمرانی کے خاتمے اور اُن کی معزولی کا سبب بنی۔ ماہرین کے خیال میں یورپ کی طرف غیر قانونی تارکین وطن کے بہاؤ میں ڈرامائی اضافے کے پیچھے اگر کسی ایک عنصر کا ہاتھ قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ لیبیا کی یہ صورتحال ہی ہو سکتی ہے۔ ایک طرف بحری جہازوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب خوفناک سمندری حادثات آئے دن ہونے لگے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر لیبیا سے رواں ہونے والی ایک کشتی کے اُلٹ جانے کے نتیجے میں 800 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ بحیرہ روم میں کسی جہاز کی تباہی کا اب تک کا بدترین واقعہ ہے۔ 2015 ء اس حوالے سے سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سال ثابت ہوا ہے اور گزشتہ تین ہفتوں کے دوران تیرہ سو انسان موت کے مُنہ میں جا چُکے ہیں۔

Flüchtlingslager in Tunesien ARCHIVBILD 2011
افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ علاقوں کے تارکین وطن پناہ کی تلاش میں رواںتصویر: dapd

قذافی نے اپنے دورِ حکومت کے دوران یورپ کی طرف آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کم کرنے سے متعلق متعدد معاہدے طے کیے تھے۔ یورپی یونین کی سرحدی نگرانی کی ایجنسی Frontex کے مطابق 2010 ء میں قریب ساڑھے چار ہزار تارکین وطن شمالی افریقہ سے خطرناک سرحد عبور کر کے اٹلی پہنچے تھے۔

2014 ء میں یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کر چُکی تھی۔ اس سال یورپ میں داخل ہونے والے قریب 51 ہزار غیر قانونی تارکین وطن نے یورپ کا دوسرا بڑا انسانی اسمگلنگ کا روٹ اختیار کیا۔ یعنی ترکی سے یونان اور بلقان کا رستہ ۔ 2008 ء میں بھی تقریباً اتنے ہی غیر قانونی تارکین وطن اسی رستے یورپ آئے تھے۔