لیبیا کا بحران: امریکی صدر کی یورپی رہنماؤں سے مشاورت
25 فروری 2011واشنگٹن انتظامیہ کے ایک بیان کے مطابق صدر اوباما نے طرابلس حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے جمعرات کو برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور اٹلی کے وزیر اعظم سلویو بیرلسکونی سے ٹیلی فون پر مشاورت کی۔
امریکی انتظامیہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ان رہنماؤں نے لیبیا کی حکومت کو اس کی کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کیا۔ قبل ازیں وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ پابندیوں سمیت تمام آپشنز کھلے ہیں اور فوج بھی اپنی تجاویز صدر کو پیش کرے گی۔
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ لیبیا کے خلاف مشترکہ عالمی کارروائی کا تاحال کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا اور بیرونی حکومتوں کی زیادہ توجہ وہاں سے اپنے شہریوں کو نکالنے پر ہے۔ لیبیا سے غیرملکیوں کا انخلاء جاری ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف حکومتیں بحری جہاز اور فوجی طیارے روانہ کر رہی ہیں۔
ماضی میں واشنگٹن حکومت معمر قذافی کو ’میڈ ڈاگ‘ بھی قرار دی چکی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما آئندہ پیر کو وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا روانہ کر رہے ہیں، جہاں وہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل پر زور دیں گی کہ وہ لیبیا کی مذمت کرے۔
روئٹرز نے فرانسیسی ذرائع کی جانب سے جاری کیے گئے اندازوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا میں پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے اب تک تقریباﹰ دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل کی جانب بڑھ رہی ہیں، جس سے عالمی معیشت میں بحالی کے عمل کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
ادھر وکی لیکس کی جانب سے حاصل کیے گئے خفیہ سفارتی پیغامات میں کہا گیا ہے کہ اقتدار پر معمر قذافی کے کنٹرول کا انحصار طرابلس کے گرد تعینات ایلیٹ فورس کی کارکردگی پر ہے، جس کی قیادت قذافی کا ایک چھوٹا بیٹا کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف احتجاج دیگر عرب ممالک میں اسی نوعیت کے حالات کی ایک کڑی ہے۔ اس سے قبل مصر اور تیونس میں عوامی احتجاج کے باعث حکومتیں گر چکی ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک