لیبیا: امریکہ مرکزی کردار ادا کرنے پر راضی نہیں
15 اپریل 2011برلن میں ہونے والے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اہم اجلاس میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے برطانیہ اور فرانس کی جانب سے لیبیا کے حکمران معمر قذافی کے خلاف زمینی کارروائی کے مطالبے کو رد کر دیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے نیٹو وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لیبیا میں قذافی کے خلاف فوج کارروائی کو کامیاب بنانے کے لیے عزم اور اتحاد کی اہمیت پر زور دیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی عندیہ نہیں دیا کہ امریکہ لیبیا میں موجود باغیوں کی امداد کے لیے زمینی کارروائی کرسکتا ہے یا اس میں شامل ہوگا۔
برلن میں جس وقت نیٹو کا یہ اہم اجلاس ہو رہا تھا عین اسی وقت کرنل قذافی کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں کی جانب سے یہ انتباہ سامنے آیا کہ اگر نیٹو نے فیصلہ کن کارروائی نہ کی تو بہت بڑے خون خرابے کا امکان ہے۔ باغیوں کے مطابق قذافی کی فورسز کی جانب سے مصراتہ کی بندرگاہ سے ملحقہ ایک رہائشی قصبے پر حملے کے نتیجے میں تئیس شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب اسپین نے کہا ہے کہ اس کا نیٹو کے ان سات رکن ممالک میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں جو لیبیا میں زمینی فوجی کارروائی کا حصّہ بن رہے ہیں۔ اٹلی، جو کہ لیبیا پر نو آبادیاتی دور میں حکومت کر چکا ہے، کا کہنا کہ ایسی کارروائی میں حصّہ لینے کے خواہش مند ممالک مزید دلیلیں پیش کریں۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ الاں ماری یوپے نے اجلاس کے بعد کہا کہ پیرس کی جانب سے امریکہ کو درخواست دی گئی ہے کہ وہ لیبیا میں اپنی فوجی پوزیشن کا از سرِ نو جائزہ لے تاہم امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی میں کسی تبدیلی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ نے لیبیا کے رابطہ گروپ کے بدھ کے روز دوہا میں ہونے والے اجلاس کے اس اعلامیے کی حمایت بھی کی جس میں کہا گیا ہے کہ قذافی کو لیبیا کا اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ اس رابطہ گروپ میں سولہ مغربی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان