دو ہفتے قبل جب میں اس شہر میں اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ وارد ہوئی تو میرا جہاز چند منٹ لیٹ تھا اور ایئرپورٹ پر جو ٹیکسی مجھے لینے آئی تھی، اس کو پارکنگ لاٹ میں انتظار کرنا پڑا، جس کے لیے پارکنگ کا ٹھیکہ دار ڈرائیور سے اضافی سو روپیہ مانگ رہا تھا۔ تقریباً دس منٹ تک ٹیکسی ڈرائیور اور پارکنگ والے کے درمیان فقروں کا ایسا تبادلہ ہو رہا تھا، جو صرف لکھنؤ میں ہی ممکن ہے۔
’’دیکھیے جناب! میں دوبارہ آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ کی ٹیکسی پارکنگ میں کھڑی تھی اور اس کا کرایہ واجب ہے۔ بس جلدی سے سو روپے نکال کر مجھے اور اپنے آپ کو فارغ کیجیے۔"
دوسری طرف ٹیکسی والا کہہ رہا تھا، ”دیکھیے حضرت! بحث کو ختم کیجیے اور بتائے کہ صرف پانچ منٹ گاڑی کھڑی کرنے کے لیے سو روپے مانگنا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘
جھگڑے کے باوجود وہ دونوں شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے۔ ادب و تہذیب سے بھر ے مکالمے سننے کا دل تو بہت ہی چاہ رہا تھا مگر مجھے دیر ہو رہی تھی۔ میرے بھائی کی آجکل لکھنؤ میں پوسٹنگ ہے اور میری والدہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ اس لئے میں نے جب دیکھا کہ بحث خاصی طویل ہو رہی ہے تو میں نے اپنے پرس سے سو روپے کا نوٹ نکال کر پارکنگ والے کے حوالے کیا۔ اس نے شکریہ کر کے ڈرائیور کو ٹیکسی نکالنے کی اجازت دی۔
حالانکہ آج کا لکھنؤ اب خاصا بدل چکا ہے مگر اس تہذیب کے آثار ابھی بھی کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں۔ زبان و ادب کی فصاحت کے ساتھ ساتھ اودھ کے نوابوں نے اس شہر کو ہرا بھر ا رکھنے کے لیے کئی باغ تعمیر کروائے تھے۔ چار باغ، قیصر باغ، عالم باغ اور اس طرح کے بہت سے دوسرے باغ ان کی اس وسعت نظر کی داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم بدقسمتی کی بات ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں کئی باغات کو ختم کر کے ان کی جگہ غیر منصوبہ بند کنکریٹ کے ڈھانچے تعمیر کرائے جا رہے ہیں۔
لکھنؤ ایک انتہائی دلفریب تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ باغات کے علاوہ اس شہر کو پکوانوں کا بادشاہ بھی بتایا جا سکتا ہے۔ جہاں بھارت کے دیگر علاقوں میں مسلمان ”سلام" کر کے اور ہندو”نمسکار" کر کےاپنی شناخت بھی ظاہر کرتا ہے، وہیں لکھنؤ میں دونوں فرقوں کے افراد آپ کا استقبال ”آداب عرض ہیں" کہہ کر کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ شخص ہندو ہے یا مسلمان۔
یہ لکھنوی تہذیب ہی ہے، جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ہی تار سے جوڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس روایتی سلام کو لکھنؤ کے نوابوں نے متعارف کرایا تھا اور یہ گنگا جمنی تہذیب کا ایک اہم اور لازمی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندو اور مسلمان دونوں لمبی چکنکاری والی شیروانی اور دو کونے والی لکھنوی ٹوپیاں پہنتے تھے۔
یہ ایک ڈریس کوڈ تھا، جو دونوں فرقوں کے معززین کو قابل قبول تھا۔ لکھنؤ اپنے ٹنڈے کباب، موتی پلاؤ اور کچوریوں کے لیے مشہور تو ہے ہی مگر جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے، اسی طرح لکھنوی تہذیب میں پان بھی ضروری جز ہے۔ گھر آئے مہمان کو پانی یا چائے پیش کریں یا نہ کریں، لکھنؤ والے پان ضرور پیش کرتے ہیں۔
گنگا جمنی تہذیب سے پیدا ہوئی اردو زبان کو اس کی مٹھاس بھی اسی شہر سے ملی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو زبان گو کہ بھارت کے جنوب میں پیدا ہوئی اور پھر دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پروان چڑھی۔ مگر اسے اپنی نرمی، مٹھاس اور شائستگی لکھنؤ سے ہی حاصل ہوئی۔ یہ لکھنوی انداز ہی ہے جس نے اس کو عروج تک پہنچایا۔
جہاں شہر لکھنؤ نے انتہائی کشیدگی کی فضا میں بھی ہندو مسلم فسادات نہیں دیکھے، وہیں یہ شہر کچھ عرصہ قبل تک شیعہ اور سنی فسادات کا گڑھ ہوتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے یہ دونوں فرقے آپس میں بھڑتے تھے تو ان کے درمیان صلح ہندو کرواتے تھے۔ لکھنؤ کی ایک مشہور شخصیت حسام صدیقی یاد کرتے ہیں کہ فسادات کے بعد یا کشیدگی کی صورت میں کانگریس پارٹی کے لیڈر کے کے مشرا سنی فرقے کی نمائندگی کرتے تھے جبکہ پی ڈی مشرا، جن کا تعلق جن سنگھ، موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہوتا تھا، شیعہ فرقے کی نمائندگی کرتے تھے۔ دونوں برادریوں کا ایک ہجوم میٹنگ ہال کے باہر ان کے فیصلہ کا انتظارکرتا رہتا تھا۔
لکھنؤ، جو بھارت کی متنوع اور جامع ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے کو اب فرقہ پرستوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس شہر میں، جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے، اب اپنے مخصوص علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں، دیواریں کھینچی جا رہی ہیں۔ ہندو اب ہندو علاقے میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ جن مسلمانوں کے مکان ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں، وہ ان کو بیچ کر مسلم محلوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ کیا لکھنوی تہذیب فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر لڑنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا ملک کے باقی حصوں کی طرح لکھنؤ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
بھارت کے مختلف شہروں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں، جیسے الہ ٰ آباد کا نام اب پریاگ ہو گیا ہے، مغل سرائے اب دین دیال اپادھیائے ہے۔ آگرہ، علی گڑھ اور لکھنؤ کے ناموں کو بھی تبدیل کرنے کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ اس وقت صوبہ اتر پردیش میں انتخابات کا موسم ہے۔ کیا معلوم کہ انتخابات کے بعد لکھنؤ برقرار رہتا ہے کہ نہیں؟
کیا ڈرائیور اور پارکنگ لاٹ والے شخص کے درمیان آداب و تہذیب سے بھرپور تکرار دوبارہ سننا نصیب ہو گی؟ لکھنؤ میں تہذیب آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ کیا یہ ہم سب کا فرض نہیں ہے کہ اس کو بچا کر آئندہ نسلوں کے لیے اس شہر کو واقعی ایک علامت بنا کر زندہ رکھا جائے؟